نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
(غالب)
یہ شعر غالب نے ویتنام اور افغانستان میں امریکی داخلے اوراخراج سے کم ازکم سوا سو برس پہلے لکھا۔ اس سوائی صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور امریکا کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ بظاہر ویتنام اور افغانستان میں ہر اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے مگر امریکا نے دونوں ممالک کو تجرباتی و تاریخی اعتبار سے جڑواں بنا دیا۔
جس طرح ساڑھے تین ہزار امریکی تابوتوں اور لگ بھگ ڈھائی لاکھ افغان اموات کے بعد قطر میں طالبان اور امریکا دوبرس کی بات چیت کے نتیجے میں فروری دو ہزار بیس میں ایک سمجھوتے تک پہنچے۔ اسی طرح قریباً آٹھ برس میں اٹھاون ہزار امریکی تابوتوں اور بیس لاکھ ویتنامی اموات کے بعد دو برس کی بات چیت کے نتیجے میں جنوری انیس سو تہتر میں امریکا، شمالی ویتنام، ویت کانگ چھاپہ ماروں اور جنوبی ویتنام نے پیرس سمجھوتے پر دستخط کیے۔
طے پایا کہ ویتنام کے دونوں حصوں میں جامع جنگ بندی کے بدلے امریکی افواج مقررہ مدت میں ویتنام چھوڑ دیں گی۔ ایک دوسرے کے جنگی قیدی رہا کر دیے جائیں گے اور پرامن طریقے سے شمالی و جنوبی حصوں کو متحد کیا جائے گا۔ انتخابات کے انعقاد تک جنوبی ویتنام کی امریکا نواز حکومت کا وجود برقرار رہے گا اور شمالی ویتنام اور ویت کانگ بزورِ طاقت زمینی حقائق بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
مگر سب فریق جانتے تھے کہ طاقت کا توازن کس جانب ہے۔ امریکا کو بہرحال اس سمجھوتے کے روپ میں انجیر کا وہ پتہ (فگ لیف) ہاتھ آ گیا جس سے وہ ستر پوشی کی اداکاری کرتے ہوئے ویتنام چھوڑ سکتا تھا۔
جیسے ہی سمجھوتے کے دو ماہ بعد انتیس مارچ کو آخری امریکی فوجی رخصت ہوا۔ شمالی ویتنام اور ویت کانگ نے جنگ بندی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جنوبی ویتنامی افواج کو پیچھے دھکیلنے کی آخری کوشش شروع کر دی۔ خانہ جنگی کے اگلے ڈیڑھ برس میں اسی ہزار جنوبی ویتنامی فوجی کام آ گئے۔ دیہی علاقے پوری طرح ویت کانگ گوریلوں کے قبضے میں پہلے سے تھے۔ صرف سائیگون سمیت چند بڑے شہروں پر جنوبی ویتنام کی امریکا نواز حکومت کا قبضہ برقرار رہا۔
مگر تیس اپریل انیس سو پچھتر کو سائیگون بھی ڈھے گیا اور چند بچے کھچے امریکی عسکری مشیر و سفارت کار سفارت خانے کی چھت پر اترنے والے فوجی ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر ہی " باعزت طریقے "سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔ آخری ہیلی کاپٹر کی تصویر ایک تاریخی استعارہ بن گئی۔ اس کے ڈنڈے سے بھی سپر پاور معززین لٹکے ہوئے تھے۔
ان آٹھ جنگی برس کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ بیس ہزار جنوبی ویتنامیوں نے بطور مترجم، کلرک، ڈرائیور، باورچی وغیرہ وغیرہ امریکی فوجی یونٹوں میں ملازمت کی۔ امریکی فوجیوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں بھی کیں۔ ان سے ہونے والے بچوں کے لیے " امریشین نسل " کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔
امریکیوں کے لیے خدمات بجا لانے والے لگ بھگ بیس ہزار ویتنامیوں کو تو خصوصی انتظامات کے تحت امریکا میں بسنے کی اجازت مل گئی۔ مگر ہزاروں پھر بھی پیچھے رہ گئے۔ ان میں سے بیشتر اپنے ہی ہم شکل فاتحین کے انتقام کے خوف سے جس کشتی میں جگہ ملی ٹھنس ٹھانس کر کھلے سمندروں میں نکل لیے۔ بہت سے لقمہِ اجل بنے اور بہت سے بالاخر امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے البتہ بہت سے پیچھے رہ گئے۔ انھیں نظریاتی " ری ایجوکیشن " کے کیمپوں میں رکھا گیا اور سافٹ وئر اپ ڈیٹ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
اس داستان کو افغانستان کے تعلق سے پھر سے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ حالات و واقعات و سمجھوتے کی زبان اور بعد کی صورتِ حال اور امریکیوں کے راتوں رات بگرام ایرپورٹ چھوڑ کر نکل بھاگنے کا احوال کم وبیش ویسا ہی ہے۔ بس اتنا کیجیے کہ شمالی ویتنام و ویت کانگ کی جگہ طالبان لکھ لیجیے۔ جنوبی ویتنام کی جگہ اشرف غنی حکومت تصور کر لیجیے۔ سائیگون کو کابل سے بدل دیں۔ پیرس امن سمجھوتے کے بجائے قطر امن سمجھوتہ پڑھ لیجیے۔ دونوں سمجھوتوں کی شقوں اور ان شقوں کے پیچھے کارفرما امریکی و طالبانی نئیت میں آپ حیرت انگیز مماثلت پائیں گے۔ اور آخر میں سائیگون کے امریکی سفارت خانے کی چھت کو بگرام ایرپورٹ سے بدل لیجیے۔
جس طرح امریکا نے سائیگون میں اپنے سفارت خانے اور ایرپورٹ کی حفاظت کے لیے چند سو فوجی چھوڑ دیے تھے۔ بعینہہ تیس اگست کے بعد کابل میں سفارت خانے اور ایرپورٹ کی حفاظت کے لیے امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے چھ سو تک رہ جائے گی۔ اگر طالبان کابل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو پھر یہ آخری امریکی فوجی بھی ہیلی کاپٹروں میں اڑن چھو ہو جائیں گے۔
جس طرح امریکی فوجی انخلا کے ڈیڑھ برس بعد پانچ لاکھ جنوبی ویتنامی سپاہ نفری اور اسلحے کی برتری کے باوجود عسکری حوصلے کے آخری پائیدان پر کھڑی تھی اور پھر یہ فوج بھی ریت کی دیوار ہوگئی۔ اسی طرح تین لاکھ افغان فوج بھی مزاحمت تو کر رہی ہے مگر جتنے فوجی روزانہ کام آ رہے ہیں کم و بیش اتنے ہی فرار بھی ہو رہے ہیں۔
جس طرح امریکا کو جنوبی ویتنام میں اپنے وفادار مقامی کارکنوں کو بحفاظت نکالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اسی طرح ان بیس ہزار افغانوں کو بحفاظت نکالنے کا مرحلہ درپیش ہے جنھیں طالبان غدار سمجھتے ہیں۔ امریکا نے جولائی کے تیسرے ہفتے میں ان افغانوں کے انخلا کے لیے آپریشن الائیز ریفیوج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چونکہ طالبان نے تاجکستان، ایران اور پاکستان سے متصل سرحدی چوکیوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے لہٰذا ان وفاداروں کو عبوری طور پر وسط ایشیا کی تین ریاستوں اور بحرالکاہل میں جزیرہ گوام کے امریکی اڈے تک بذریعہ کابل ایرپورٹ منتقل کیا جائے گا۔ تاکہ امیگریشن ویزے کی شرائط کے تحت ان کے افغانی و خاندانی پس منظر کی دستاویزی چھان پھٹک مکمل ہونے تک کسی جانی نقصان سے محفوظ رکھا جا سکے۔
جس طرح ویت کانگ چھاپہ مار قیادت نے امریکیوں کے لیے کام کرنے والوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ہماری لڑائی امریکا سے تھی کسی ویتنامی سے نہیں۔ اس لیے ڈرو نہیں۔ اسی طرح طالبان نے بھی غیرملکی افواج کی ملازمت کرنے والے افغانوں کو پیش کش کی ہے کہ وہ ملک چھوڑنے کے بجائے خود پیش ہو کر تائب ہو جائیں تو انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ انھیں کب تک اور کس کے سامنے پیش ہو کر اظہار پشیمانی دکھانا ہے۔
جس طرح وفادار ویتنامیوں نے ویت کانگ کے وعدوں پر حالتِ خوف میں اعتبار نہ کرتے ہوئے خود کو کھلے سمندروں میں جانے والی کشتیوں میں سوار کر لیا۔ اسی طرح وفادار افغانوں کو بھی طالبانی وعدوں پر یقین نہیں۔ اگر کسی کو ہوگا بھی تو وہ بھی سی این این پر چلنے والی ایک فوٹیج کو دیکھ کر ہوا ہو گیا ہوگا۔ اس وڈیو کے مطابق طالبان نے شمالی افعانستان میں ایک مقام پر افغان کمانڈوز کو جاں بخشی کے وعدے پر ہتھیار پھینکنے کو کہا اور جب انھوں نے ہاتھ بلند کر دیے تو کلاشنکوفوں کا رزق بنا ڈالا۔
جنگوں کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ بند کمرے میں بیٹھے چند طاقتور لوگوں کے فیصلوں کا رزق ہمیشہ وہی لاکھوں لوگ بنتے ہیں جنھیں ان فیصلوں کا اور فیصلہ سازوں کا شاید آخری وقت تک علم نہیں ہوتا۔ نہ مرنے والا جانتا ہے کہ کیوں مارا جا رہا ہے نہ مارنے والا سپاہی یا چھاپہ مار جانتا ہے کہ کیوں مار رہا ہے۔ سوائے ان چند لوگوں کے کہ جن کے بچے غیر طبعی موت سے ہر ممکن محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔