گزشتہ سے پیوستہ ہفتے نئے موسوی سال (روش ہشنا) کا تین روزہ روائیتی تہوار منایا گیا۔ اس موقع پر یہودیوں کی تازہ عالمی تعداد بھی بتائی جاتی ہے (ایک یہودی کی تعریف یہ ہے کہ والدین میں سے کم ازکم ایک شریعتِ موسوی کو مانتا ہو)۔
اس اعتبار سے سرکاری محکمہ شماریات اور یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ ایک برس میں یہودیوں کی عالمی تعداد میں ایک لاکھ نفوس کا اضافہ ہوا اور یوں ان کی عالمی تعداد ایک کروڑ اٹھاون لاکھ ہے۔ یہ تعداد کل عالمی آبادی کا اعشاریہ دو فیصد ہے۔ ان میں سے تہتر لاکھ اسرائیلی شہری ہیں جب کہ پچاسی لاکھ دیگر ممالک میں بستے ہیں۔
اسرائیل کے باہر سب سے بڑی یہودی کمیونٹی امریکا میں ہے یعنی تریسٹھ لاکھ۔ فرانس میں چار لاکھ اڑتیس ہزار، کینیڈا میں چار لاکھ، برطانیہ میں تین لاکھ تیرہ ہزار، ارجنٹینا میں ایک لاکھ ستر ہزار، جرمنی میں سوا لاکھ، روس میں ایک لاکھ تئیس ہزار، آسٹریلیا میں ایک لاکھ سترہ ہزار، برازیل میں نوے ہزار تین سو، جنوبی افریقہ میں پچاس ہزار، ہنگری میں پینتالیس ہزار، میکسیکو میں اکتالیس ہزار اور ہالینڈ میں پینتیس ہزار یہودی آباد ہیں۔
فلسطینیوں کی عالمی آبادی کا تخمینہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ ان میں سے فلسطینی اتھارٹی کے تحت بسنے والے شہریوں کی تعداد تقریباً پچپن لاکھ ہے۔ یعنی بتیس لاکھ مقبوضہ غربِ اردن اور تئیس لاکھ غزہ میں رہتے ہیں۔ جب کہ بیس لاکھ فلسطینی اسرائیلی شہری ہیں۔ یعنی اسرائیل کی کل آبادی کا پندرہ فیصد۔ اس اعتبار سے تاریخی فلسطین (اسرائیل بشمول مقبوضہ غربِ اردن و غزہ) میں لگ بھگ پچھتر لاکھ فلسطینی عرب آباد ہیں۔
جب کہ تاریخی فلسطین سے باہر پینسٹھ لاکھ فلسطینی باشندے ہیں۔ ان میں سے ساٹھ فیصد اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام اٹھاون کیمپوں میں ہیں۔ اردن میں فلسطینی کل آبادی کا چوبیس فیصد ہیں۔ بقیہ شام، مصر، لبنان، خلیجی ریاستوں، یورپ و شمالی و جنوبی امریکا میں آباد ہیں۔
جہاں تک اثر و رسوخ اور وسائل تک رسائی کا معاملہ ہے تو یہودی آبادی کے مقابلے میں فلسطینی کسی شمار قطار میں نہیں۔ جن ممالک کے ہاتھ میں دنیا کی قسمت ہے وہاں کی اسٹیبلشمنٹ میں یہودی اثر و رسوخ آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب دو اعشاریہ چار فیصد ہے۔ ان میں سے اکیانوے فیصد بیس امریکی ریاستوں میں آباد ہیں۔ ان میں سے پانچ ریاستوں (نیویارک، کیلیفورنیا، فلوریڈا، نیوجرسی، پنسلوانیا) میں سب سے زیادہ یعنی ساٹھ فیصد یہودی رہتے ہیں۔ قلیل تعداد کے باوجود موجودہ امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں میں سات فیصد اور ایوانِ بالا (سینیٹ) میں دس فیصد ارکان یہودی ہیں۔ جب کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں کلیدی مناصب پر فائز یہودیوں کا تناسب اور زیادہ ہے۔
اگر ہم موجودہ بائیڈن انتظامیہ کو ہی دیکھ لیں تو سب سے اوپر وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کا نام آتا ہے۔ اخبار یروشلم پوسٹ کی پچاس بااثر عالمی یہودیوں کی موجودہ فہرست میں نیتن یاہو دوسرے اور بلنکن تیسرے نمبر پر ہیں۔ نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمین (جولائی میں مستعفی ہوگئیں )، ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے امورِ اسرائیل و فلسطین و خلیج مائرا ریزنک، خصوصی مشیر برائے ہالوکاسٹ امور اسٹورٹ ایزانسٹاٹ، وائٹ ہاؤس کی رابطہ کار برائے یہودی کمیونٹی شیلی گرین اسپین (ان کا تعلق ایلن گرین اسپین سے نہیں جو انیس سو ستاسی تا دو ہزار چھ فیڈرل ریزرو کے چیٔرمین رہے)۔
سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیوڈ کوہن، اسرائیل میں امریکا کے سابق سفیر، نائب وزیرِ دفاع برائے امورِ مشرقِ وسطی و ایران ڈان شپیرو، ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جینس ایورل ہائنز، ڈپٹی ایڈوائزر برائے سائبر سیکیورٹی این نوبرگر، سیکریٹری ہوم لینڈ سیکیورٹی ایلڑاندرو مائیورکاس، مشیرِ توانائی آموس ہوشسٹین، سفیر برائے ڈنمارک ایلن لیونتھال، سفیر برائے جرمنی ایمی گٹمین، سفیر برائے مالٹا کونسٹنس ملسٹین، سفیر برائے قزاقستان ڈینیل روزن بلم، سفیر برائے کینیڈا ڈیوڈ کوہن، سفیر برائے ہنگری ڈیوڈ پریسمین، سفیر برائے بھارت ایرک گارسیٹی، سفیر برائے اٹلی جیک مارکل، سفیر برائے سنگاپور جوناتھن کپلان، سفیر برائے ناروے مارک نیتھنسن، سفیر برائے پیراگوئے مارک اوسٹفیلڈ، سفیر برائے ارجنٹینا مارک سٹینلے، سفیر برائے یورپی یونین مارک گٹنسٹائن، سفیر برائے بلجئم مائیکل اڈلر، سفیر برائے جاپان راہم امانویل، سفیر برائے پرتگال رینڈی لوائن، سفیر برائے اردن ییل لیمپرٹ۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس، بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق وفاقی کمیشن کے سربراہ شیرون کلینبوم، صدر بائیڈن کے چیف آف اسٹاف (دو ہزار اکیس تا تئیس) رون کلین، وائٹ ہاؤس کے خصوصی مشیر ایڈورڈ سسکل، اینٹی سمٹ ازم (یہود دشمنی) کے انسداد کی صدارتی مشیر ڈیبرا لپسٹاڈ، بارڈر سیکیورٹی کے نگراں رابرٹ جیکبسن، اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکی سفیر مائیکل ٹیلر، اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جوناتھن کینٹر، وفاقی وزیر خزانہ جینیٹ یالن، اقتصادی مشاورتی کونسل کے سربراہ جاریڈ برنسٹین، انڈر سیکریٹری کامرس جیڈ کولکو، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے سربراہ گیری گینزلر، مشیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ایرک لینڈر۔ سب کا پس منظر یہودی ہے۔
ایسا نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ میں مسلمان عہدیدار نہیں مگر ان میں سے زیادہ تر جونئیر لیول کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ ان کی تعداد کل ملا کے سو کے لگ بھگ ہے۔ اعلیٰ عہدے پر صرف رشاد حسین کا نام نظر آتا ہے جو اس وقت بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق صدر کے ایمبیسڈر ایٹ لارج (سفیرِ عمومی) ہیں۔ رشاد حسین بش انتظامیہ کے دور میں اسلامی کانفرنس تنظیم کے لیے نامزد امریکی ایلچی تھے۔ مگر اب تک کوئی مسلمان امریکی شہری کسی ملک میں بطور سفیر تعینات نہیں ہو پایا۔ حالانکہ امریکی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ایک اعشاریہ دو فیصد (تین اعشاریہ پانچ ملین)ہے اور وہ مسیحوں اور یہودیوں کے بعد تیسری بڑی مذہبی کمیونٹی ہے۔
پاکستانی نژاد امریکی شہری عدیل منگی ایک ممتاز قانونی ماہر ہیں۔ گزشتہ نومبر میں بائیڈن انتظامیہ نے انھیں وفاقی عدالت کے لیے بطور جج نامزد کیا مگر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے عدلیہ نے ان کے نام کی اب تک منظوری نہیں دی۔ بلکہ انھیں کچھ سینیٹرز نے طنزیہ رکیک حملوں کا نشانہ بنایا۔
ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کمالا ہیرس کے وکیل خاوند ڈگلس ایمہوف کا تعلق نیویارک میں سوا سو برس سے آباد ایک پولش نژاد یہودی خاندان سے ہے۔ کمالا اگر صدر بن گئیں تو ڈگلس ایمہوف امریکا کے پہلے مردِ اول کہلائیں گے۔ وہ اس وقت انسدادِ یہود دشمن ذہنیت سے متعلق وائٹ ہاؤس کی ٹیم میں شامل ہیں اور اسرائیل پر تنقید کو بھی یہود دشمنی مانتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی دونوں بہوؤں کا خاندانی پس منظر بھی یہودی ہے۔ بڑے بیٹے بئیو بائیڈن کی اہلیہ ہیلی اولیور وکیل ہیں اور چھوٹے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی اہلیہ میلیسا کوہن فلم میکر ہیں۔
بائیڈن خاندان کی غیر سیاسی زندگی کے برعکس سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر داماد جاریڈ کشنر کا تعلق ایک متمول کاروباری یہودی خاندان سے ہے۔ وہ اپنے سسر کے سینئر ایڈوائزر رہے اور اسرائیل اور خلیجی ریاستوں کے درمیان معاہدہِ ابراہیمی میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کشنر کا شمار سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی دوستوں میں بھی ہوتا ہے۔
اگلے مضمون میں ہم سب سے طاقتور لابی گروپ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (ایپک) کی بات کریں گے۔ کئی معنوں میں یہ امریکی کانگریس سے بھی زیادہ موثر ہے اور اس کا رسوخ اتنا ہے کہ ایپک کو آپ ریاست کے اندر ریاست بھی کہہ سکتے ہیں۔