جب دو ہزار چودہ میں کچھ لوگ چلا رہے تھے کہ فسطائیت کے سبب ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے ڈسے کروڑوں لوگوں کی جمہوریت اور کھلے پن کی جانب مراجعت کے ستر سالہ سفر کو دوبارہ فسطائی قوتوں سے شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے تو اسے انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت ہر جگہ قبل از مرگ واویلا بتا کر رد کرنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
پھر انھی رد کرنے والوں نے دیکھا کہ ٹرمپ نے کیسے امریکی جمہوریت کو عین درمیان سے تقسیم کرکے پرکھوں کی دو سو سالہ محنت کو نل بٹا سناٹا کر دیااور اس کا ڈراپ سین چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر فسطائیت پسندوں کی یلغار کی شکل میں دنیا نے دیکھا۔
برازیل میں کس طرح ووٹروں نے جذبات میں اندھے ہو کر انتہائی دائیں بازو کے نسل پرست گائر بولسنارو کو طاقتور صدارت تھما دی۔ اور جب احساس ہوا کہ یہ صاحب نہ صرف ماحولیات دشمن ہیں بلکہ کوویڈ کی وبا کی روک تھام کے لیے ڈاکٹروں اور طبی ماہرین کی ماننے کے بجائے بذاتِ خود اپنی حکمت آزما رہے ہیں اور اس حکمت کے نتیجے میں ایک کروڑ دس لاکھ شہریوں کو کوویڈ میں مبتلا کر کے اب تک پونے تین لاکھ شہریوں کی موت کا سبب چکے ہیں۔ تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اب جب بولسنارو صاحب اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے تب برازیل کے ووٹروں کو ان سے جان چھڑانے یا ایک نئی مدت کے لیے دوبارہ مسلط کرنے کا موقع ملے گا۔
اپنے خطے میں دیکھیں تو آٹھ برس پہلے تک آمرانہ شکنجے میں کسی ہوئی ریاستوں کا طعنہ چین، ایران اور عرب ممالک کے لیے مختص تھا اور یہ کہہ کر چائے منگوا لی جاتی تھی کہ ان ممالک کے شہریوں کو اظہار کی آزادی ہی میسر نہیں ورنہ تو خطے کا نقشہ بدل جاتا۔
مگر جن ممالک کے عوام کو ووٹ کی لگژری حاصل تھی۔ انھوں نے اپنے ساتھ کیا کیا یا ان کے ووٹ کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا؟ پاکستانی حزبِ اختلاف آج یہی مقدمہ لڑ رہی ہے۔ حالانکہ جب یہی حزبِ اختلاف حزبِ اقتدار تھی تو جانے انجانے اس کی پالیسیاں اور ناچاقیاں اور بزدلیاں بھی منتخب آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے میں شعوری و لاشعوری طور پر کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔
بنگلہ دیش میں بھی ووٹر نے باہوش و ہواس مگر کل کے بارے میں سوچے بغیر اپنے حق کا استعمال کیا۔ آج بنگلہ دیش بھی ایک منتخب آمریت کے کمبل میں کسمسا رہا ہے مگر کمبل کی گرفت ہر نئے دن کے ساتھ جکڑتی جا رہی ہے۔ جسے کوئی شک ہو وہ الجزیرہ کی ایک ماہ پرانی تحقیقی دستاویزی فلم " آل دا پرائم منسٹرز مین " دیکھ کر منتخب آمریت کے بنگلہ دیشی رنگ دیکھ سکتا ہے۔
سری لنکا میں بھی ووٹروں نے قوم پرست راجا پکسا کی آمریت کے خلاف گزشتہ سے پیوستہ انتخابات میں ووٹ دیا اور پھر حالیہ انتخابات میں قوم پرستی کے سرور میں دوبارہ انھی کو منتخب کر لیا۔ اب پکسا برادران میں سے ایک بھائی صدر ہے اور ایک وزیرِ اعظم۔
برما میں فوج کی مرضی سے بنائے گئے آئین کے تحت فوج کی مرضی سے ہونے والے انتخابات میں فوج کی مرضی سے تشکیل پارلیمنٹ میں پچیس فیصد نامزد فوجی ارکان کے ہوتے ہوئے اور دفاع، داخلہ اور سرحدی امور کی وزارتیں فوجی افسروں کی میراث قرار دیے جانے کے باوجود فوج نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں آنک سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی دو تہائی اکثریت کو بوٹ کی ٹھوکر سے اتار پھینکا اور اب سڑک پر نکلے ہوئے لاکھوں لوگوں کو پھر سے پرانے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گویا برمی جنرلوں کو طفیلی جمہوریت بھی راس نہ آئی اور انھیں نیم جمہوری تجربے کے دورانیے میں بھی ربڑ کے سانپ سے ڈسے جانے کا خوف لاحق رہا۔
مگر بھارت کو کیا ہوا۔ آٹھ برس پہلے تک جو ملک خود کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جمہوریت سمجھ کر ہر طرف اتراتا پھر رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ دو ہزار چودہ میں کیا کیا۔ اور پھر دو ہزار انیس میں کیا کیا؟ قوم پرستی، مذہبی جنونیت اور سوشل میڈیا کے چابک دست استعمال نے بھارت کو اس سرنگ میں دھکیل دیا ہے جس میں سے نکلنے کا راستہ آگ اور خون کے درمیان سے گذرتا ہے۔
آٹھ برس پہلے چند دیسی دیوانے چیخ رہے تھے کہ ہوش کے ناخن لو اپنے ووٹ کو تعصب کا چشمہ لگا کر اپنے لیے زنجیر خریدنے کے لیے استعمال نہ کرو ورنہ شاید دوبارہ ایک طویل عرصے تک بلا خوف و خطر ووٹ کاسٹ نہ کر سکو گے۔ مگر کسی نے نہ سنی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اوپر سے مسلط آمریت سے تو چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ مرضی سے اوڑھی آمریت سے کیسے نجات پائی جائے۔
آج باقی دنیا پر بھی رفتہ رفتہ کھلنے لگا ہے کہ بھارت صرف اپنے لیے نہیں بلکہ مستقبلِ قریب کی دنیا کے لیے بھی ایک ناخوشگوار خواب بننے کے راستے پر تیزی سے لڑھک رہا ہے۔
یہ بکواس کسی پاکستانی تھنک ٹینک کی نہیں۔ نہ ہی یہ کسی ایجنڈے باز انسانی حقوق کی تنظیم کا پروپیگنڈہ ہے۔ بلکہ بچھلے ہفتے سرکردہ امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی آزاد جمہوری ممالک کی انڈیکس میں شہری اور انسانی آزادیوں کی تنزلی کے اعتبار سے بھارت کا درجہ گھٹ کر سڑسٹھ تک پہنچ گیا۔ اور پہلی بار اسے آزاد جمہوری ریاست کی کیٹگری سے نکال کر نیم آزاد جمہوریت کی کیٹگری میں شامل کر دیا گیا۔
اس بابت فریڈم ہاؤس کے اعشاریے میں دو ہزار اٹھارہ میں بھارت کا اسکور اٹھتر، دو ہزار انیس میں اکہتر اور دو ہزار بیس میں سڑسٹھ تک پہنچ گیا۔ یعنی صرف تین برس میں گیارہ پوائنٹس کی تنزلی۔ مودی حکومت نے اس رپورٹ کو توقع کے مطابق سامراجی پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
اور اب سے تین روز پہلے سویڈن کے وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ (ورائٹی آف ڈیمو کریسی) نے اپنی پانچویں سالانہ رپورٹ میں میڈیا کی جکڑ بندی اور غداری کے قوانین کے اندھا دھند استعمال کی کسوٹی پر بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے پائدان سے اتار کر منتخب آمریت کی قطار میں کھڑا کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق سنسر شپ کے اعتبار سے بھارت پاکستان جتنا ابتر اور بنگلہ دیش اور نیپال سے زیادہ ابتر ہو چکا ہے۔ مودی حکومت سنسر شپ، ریاست سے غداری اور انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو زباں بندی کے لیے دیوانہ وار استعمال کر رہی ہے۔ اب تک سات ہزار افراد پر غداری کی دفعات لاگو کی جا چکی ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ترمیم شدہ ایکٹ (یواے پی اے) کو سڑک اور تعلیمی اداروں میں مخالفت کچلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ شہریت کے نئے قوانین پر احتجاج کرنے والے اس قانون کا خاص نشانہ ہیں۔ ہندوتوا نظریے کی پرچارک تنظیموں کو کھلی آزادی ہے۔
سویڈش رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک عشرے میں لبرل جمہوری ریاستوں کی تعداد اکتالیس سے گھٹ کے بتیس تک جا پہنچی ہے۔ اس وقت ستاسی ممالک میں آباد دنیا کی اڑسٹھ فیصد آبادی دراصل منتخب آمریتوں کے تحت زندگی بسر کر رہی ہے۔