پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ماضی کو دفن کرکے مستقبل کی طرف بڑھیں لیکن بامعنی مذاکرات کے ذریعے امن عمل شروع ہونے کے لیے ہمارے ہمسائے کو خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا، کیونکہ مستحکم پاکستان پاک ہند تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کو قریب لاسکتے ہیں۔
پاکستان کے آرمی چیف مستقل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں ہمسایہ اپنے متنازعہ مسائل کو حل کرلیں تو دونوں ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ آرمی چیف کے بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و ترقی کا کس قدر خواہش مند ملک ہے۔ ماضی میں یہ دونوں ممالک ایک ہزار سال کے لگ بھگ ایک ساتھ رہے ہیں اور اس دوران فرقہ وارانہ فسادات کا کلچر سرے سے مفقود رہا ہے۔
ہندو اور مسلمان دو بڑیمذہبی طبقے ہیں اور مذہب کے حوالے سے متحارب بھی رہتی ہیں، اس کے باوجود دونوں ملکوں کی ایک بڑی خواہش یہی ہے کہ دونوں ہمسائے ملک اپنے اختلافات ختم کرکے امن کے ساتھ زندگی گزاریں تاکہ دونوں ملکوں کے عوام پرامن اور معاشی حوالے سے بہتر زندگی گزار سکیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہندوستان کے سیاستدان ایک پرامن برصغیر کے لیے کوشاں ہیں نہ ہندوستان کی فوجی بیورو کریسی اس حوالے سے مخلصانہ کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ دونوں ممالک ہمیشہ کسی نہ کسی حوالے سے متحارب رہتے ہیں۔ جس کا تمام نقصان دونوں ملکوں کے غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور عوام معاشی، سماجی اور سیاسی حوالے سے پچھڑے ہوتے ہیں۔ جس کا ازالہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ جب سے مودی مہاراج حکومت میں آئے ہیں، آر ایس ایس سے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں جس کا نتیجہ مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں دونوں ملکوں کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو اور زیادہ انتہا پسندی کی طرف لے جا رہا ہے جس کا اثر ان سیکولر عوام پر بھی پڑ رہا ہے جو دونوں ملکوں میں مذہبی رواداری کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان میں کرپٹ لوگ اگرچہ برسر اقتدار رہے ہیں لیکن وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں، پاکستانی اہل قلم ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی حمایت کرتے رہے ہیں اور آج بھی یہی خواہش رکھتے ہیں۔ ہٹلر کے زوال کے بعد جرمنی دو حصوں مشرقی اور مغربی میں بٹ گیا لیکن جرمن عوام اس تقسیم کے خلاف تھے، سو انھوں نے ایک طویل انتظار کے بعد دیوار برلن گرا دی، اب وہ ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت اس میدان میں ہم سے آگے ہے لیکن سیاسی اور سماجی حوالے سے وہ ابھی تک پسماندہ ہی نظر آتا ہے۔ دونوں ملکوں میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارے کے سخت خواہش مند ہیں، ماضی قریب میں بھارت میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے کوشاں رہے ہیں، ان میں بھارت کے ریٹائرڈ بحریہ چیف بھی شامل ہیں جن کا نام رام داس ہے۔
موصوف نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کی بہت کوشش کی، اگرچہ وہ بھارت جیسے مذہبی انتہا پسند ملک کے شہری ہیں لیکن ہمیشہ ان کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات مضبوط ہوں۔ وہ اپنی دوستی کی تنظیم کے حوالے سے اکثر پاکستان آتے رہے ہیں، دوسری وجہ ان کی صاحبزادی ہیں جو مغربی ملکوں میں زیر تعلیم ہیں اور اپنے ہم جماعت ایک مسلمان طالب علم سے بہت قریب رہیں اور آخر کار شادی کرلی۔
ان کی صاحبزادی کی شادی ہمارے ایک دوست کے بھائی سے ہوئی۔ جب ان کی بیٹی سے ان سے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کرنے اور اپنے رومانس کا ذکر کیا تو اس وقت اس لڑکی کے والد ایڈمرل رام داس بحریہ کے سربراہ تھے، وہ بڑے پریشان ہوئے کہ کیا کریں۔ انھوں نے وزیر اعظم سے اس کا ذکر کیا تو وزیر اعظم نے کہا کہ اگر آپ کی بیٹی ایک مسلمان دوست لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی اس بات سے انھیں بڑی تسلی ہوئی اور یوں رام داس کی صاحبزادی کی شادی ایک مسلمان لڑکے سے ہوئی۔
نہ کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوا نہ خاندان میں کوئی تلخی پیدا ہوئی، یہ نازک مسئلہ بڑی خوبی سے طے پا گیا۔ رام داس اس وقت بحریہ کے چیف تھے لیکن انھوں نے مذہبی تفاوت کا خیال نہیں کیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کے آج کے وزیر اعظم نریندر مودی ایک مذہبی انتہا پسند جماعت کے وزیر اعظم ہیں اور بھارت میں ان کی جماعت مسلمانوں کی دشمن ہے۔
اصل میں ہمارے ایک دوست کرامت علی ایک این جی او چلاتے ہیں اور رام داس ان کے ساتھ دوستی کی انجمن کے حوالے سے آتے تھے ہماری جان پہچان وہیں سے ہوئی۔ ویسے رام داس انتہائی سادہ لوح اور انسانوں سے بلاتفریق محبت کرنے والے انسان ہیں، غالباً اب وہ اس انجمن میں نہیں ہیں۔ ایک زمانے سے پاکستان نہیں آئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رام داس جیسے مذہبی رواداری کے حامی لوگوں کی بات بھی بھارتی حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
ہندوستان اور پاکستان چونکہ حریف ملک ہیں لہٰذا دونوں طرف بڑے پیمانے پر اسلحے کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے اگر دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات بحال ہوتے ہیں تو اسلحے پر خرچ کیا جانے والا اربوں روپوں کا سرمایہ بچ جائے گا۔ اور ہمارے ملک میں غربت میں کمی آئے گی۔ پاکستان کی طرف سے پاکستان کے آرمی چیف نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اگر ہمارے بھارتی حکمران عقل کے ناخن لیتے ہوئے ہمارے آرمی چیف کی خواہش کا مثبت جواب دیتے ہیں تو 72 سالہ دشمنی کا بے ہودہ کلچر دوستی اور رواداری کے کلچر میں بدل سکتا ہے۔