دنیا کی تاریخ میں ایسے جلاد بھی ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے قتل کرتے ہیں اور ان کے چہروں پر شرمندگی کے بجائے خوشی اور اطمینان چھلکتا نظر آتا ہے۔ اسرائیل میں ایک ایسی قوم آباد ہے، جو اپنی اجتماعی زندگی کا ایک بڑا حصہ در درکی خاک چھاننے میں گزار چکی ہے، لیکن اسے خاک چھاننے کا تجربہ ہے۔
یہ حال اس کا کسی فلسطینی نے نہیں کیا بلکہ اس ہٹلر نے کیا جو قتل و غارت کے حوالے سے ہی پہچانا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ ہٹلر اس قوم سے اس قدر متنفر تھا کہ زندہ یہودیوں کو آگ کے چیمبر میں ڈال دیتا تھا، جہاں یہودی جل کر کوئلہ بن جاتے تھے، اس حوالے سے وہ مظلوم دکھائی دیتے ہیں، لیکن ہٹلر ان کی فطرت سے بخوبی واقف تھا اس نے یہودی قوم کا یہ حشر اس لیے کیا کہ دوسری وجوہات کے علاوہ اس قوم میں سازش اور سفاکیت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اپنی اسی سفاکیت کو وہ ہولوکاسٹ میں چھپاتے ہیں اور ہولوکاسٹ کو اسی قدر مقدس بنا کر رکھ دیا ہے کہ کوئی اس کے خلاف منہ نہیں کھولتا۔
اس یہودی قوم کو جب رہنے کے لیے مغربی دنیا نے اسرائیل کا ملک بنا کر دیا تو اس کی شیطانیت بھی جاگ پڑی اور معصوم فلسطینیوں کے خلاف ظلم کا وہ بازار گرم کیا کہ فلسطینی اس ظلم سے تنگ آ کر فلسطین چھوڑتے رہے اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں پناہ لیتے رہے۔ اسرائیلیوں کی بے وطنی پر تو امریکا اور اس کے یاروں کو اس قدر رحم آیا کہ انھیں اسرائیل عطا کردیا جب وہ صاحب ملک بن گئے تو پہلا کام انھوں نے یہ کیا کہ فلسطینیوں کو دربدر کی خک چھاننے پر مجبور کردیا اور بے چارے فلسطینی دنیا بھر میں مہاجرت کی زندگی گزارنے لگے۔
اس اثنا میں انھیں غزہ کی ایک پٹی دی گئی جسے فلسطینیوں نے اپنا گزارہ گھر بنا لیا، لیکن نیتن یاہو نے انھیں غزہ کی اس پٹی میں بھی سکون سے رہنے نہ دیا آج غزہ بارود کا ڈھیر بن گیا ہے۔ اسرائیلی بربریت سے فلسطینی مائیں اور معصوم بچے تک محفوظ نہیں ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔
اس بہیمانہ قتل و غارت نے جیسے دنیا بھر کے مسلمانوں میں آگ لگا دی ہے لیکن مسلم ملکوں کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں دکھائی دیتی، البتہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سخت بے چینی ہے وہ اسرائیلی شیطان نیتن یاہو کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
مسلم ملکوں نے اپنے بچاؤ کے لیے ایک تنظیم او آئی سی بنائی ہے جو امریکا کے ایما پر اسرائیلی قتل و غارت کے خلاف قرارداد مذمت پاس کیا کرتی ہے اور مسلم ممالک بے شرمی کا چولا اوڑھے خاموش بیٹھے ہیں اگر مسلم ممالک متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی متحدہ اقدام کریں تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جارحیت سے روکا جاسکتا ہے لیکن مسلم ملکوں کے بے حس حکمرانوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا، البتہ مسلم ملکوں کے عوام متحرک ہیں اور اسرائیل کے خلاف سخت احتجاج کر رہے ہیں۔ آج کے حالات میں ہماری مذہبی قیادت کو عوام کی رہنمائی کرنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
ہم جیسے کچھ اہل قلم اسرائیلی بربریت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں جٹے ہوئے ہیں اور اسرائیلی شیطانیت کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ جب اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف حالیہ جارحیت کا مظاہرہ کیا تو ہم نے ایک کالم لکھا تھا جس میں وضاحت کی تھی کہ اصل مجرم امریکا ہے اسرائیل تو اس کا دلال ہے آج ثابت ہو گیا کہ ہمارا اندازہ درست تھا۔
اس حوالے سے بہت سے زیادہ افسوسناک کردار او آئی سی کا ہے دنیا کے مسلم ملکوں کی نمایندہ تنظیم امریکا کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، وہ اتنا ہی کرتی ہے جتنا امریکا اجازت دیتا ہے۔ جب یہ حال مسلم ملکوں کا ہو تو اسرائیلی وحشی فلسطینی خواتین کو بھی قتل کریں گے اور بچوں کو بھی۔ اب اسرائیل کے خلاف جو کچھ کرنا ہے، وہ عوام کو کرنا ہے۔