کورونا نے ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ایک زبردست تباہی مچا دی ہے۔ ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ اس وبا سے بچنے کے لیے علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے لیکن ہمارے بہادر عوام احتیاط کو ایک غیر ضروری بات سمجھ کر سرے سے نظرانداز کر رہے ہیں، غالباً اس فراخدلی کا نتیجہ ہے کہ یہ وبا ملک بھر میں غیر معمولی تباہی پھیلا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے جو احتیاطی احکامات عوام کو جاری کیے جا رہے ہیں اسے ہماری بہادر عوام ہوا میں اڑا رہی ہے۔ جس کا نتیجہ اس بلائے عظیم میں حیرت انگیز اضافے کی شکل میں نکل رہا ہے۔ اس خطرناک صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس بات کی تھی کہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جاتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنی وہ ذمے داریاں ادا نہیں کر پا رہی ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے تھا۔
کورونا ساری دنیا کے لیے ایک بڑے عذاب کی شکل میں نازل ہوا ہے، جس سے اب تک لاکھوں لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ہم اسے حکومت کی نااہلی کہیں یا عوام کی بدقسمتی کہ مرض بڑھتا ہی گیا جوں جوں دوا کی۔ اس حوالے سے دو باتوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ایک تو یہ کہ عوام پر سخت نگرانی رکھی جائے کہ کیا وہ احتیاطی ضرورتوں کا خیال رکھ رہے ہیں؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا ویکسین کی قیمت عوام کی پہنچ سے اتنی دور ہے کہ عوام کا قیمتوں تک پہنچنا محال ہے۔
اس حوالے سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ اہل دولت سے کورونا ٹیکس کی شکل میں بھاری ٹیکس وصول کیا جائے جو ضرورت مندوں پر خرچ کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ویکسین کی قیمتوں کو قانون کے حوالے سے کم کرنے کی کوشش کی جائے پاکستان تو ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے ترقی یافتہ ملکوں کے عوام بھی ویکسین خریدنے سے معذور دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال بہت ہی مایوس کن نظر آتی ہے جس کے تدارک کی حتی الامکان کوشش کی جائے۔
حکومت نے ایس او پیز کے نام سے احتیاطی تدابیر کا اعلان تو کیا ہے لیکن ان پر عملدرآمد زیرو رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے غریب طبقات جو علاج کی صلاحیت نہیں رکھتے ان کی کیٹگری بنائی جائے جن کیٹگریز میں وہ لوگ آتے ہیں جو ویکسین خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ان فیملیوں میں کم سے کم دو آدمیوں کی ویکسینیشن کی ذمے داری حکومت کو لینی چاہیے تاکہ اگر خاندان میں کوئی کارکن نہ بچ سکا ہو تو کسی ایک یا دو ارکان فیملی کو چلانے کے لیے زندہ رہ سکیں۔ اس کے علاوہ کوئی قابل عمل راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک اور صورت یہ ہے کہ تمام عوام پر ویکسین ٹیکس کے نام پر ایک ایسا ٹیکس لگایا جائے جو عوام آسانی سے ادا کرسکیں اور یہ ٹیکس ان غریب طبقات پر خرچ کیا جائے جو علاج کرانے یا ویکسین خریدنے کے اہل نہیں ہیں۔ یہ وہ چند ایسی تجاویز ہیں جو غریب ترین عوام کی مدد میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ ورنہ عوام کو لاوارثی کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا۔
مشکل یہ ہے کہ غریب طبقات میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ ایک تو وہ غریب کیوں ہے جیسے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان اسباب کے پیدا کرنے والوں کے خلاف ایک ایسی تحریک چلا سکتے ہیں جو غریب طبقات کو غربت سے ہمیشہ کے لیے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور وہ بھی اس وبا سے بچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
دنیا میں دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن ان اربوں روپوں کے انباروں پر مٹھی بھر ایلیٹ کا قبضہ ہے اور کروڑوں انسان بے بسی کا شکار ہیں۔ کیونکہ سرمایہ داروں نے بپھرے ہوئے عوام سے بچنے کا ایک طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے وہ ہے قانون اور انصاف کا سہارا۔ دنیا کے بے سہارا کروڑوں عوام کے سامنے قانون اور انصاف کی ایسی دیوار کھڑی کردی گئی ہے جس کا مقابلہ فرد یا افراد نہیں کرسکتے بلکہ اس آہنی دیوار کو وہ کروڑوں غریب عوام ہی توڑ سکتے ہیں جو طاقتور ہوتے ہوئے بھی بہت کمزور ہیں اور بدقسمتی سے اپنی طاقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان ایسا واحد ملک نہیں جو اس لاچاری کا شکار ہے دنیا کے ملکوں میں 80 فیصد ملک اس لاچاری کے شکار ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی شکل میں دنیا کے اربوں انسانوں پر مسلط ہے۔ مجھے بار بار انقلاب فرانس کا حوالہ اس لیے دینا پڑتا ہے کہ فرانس میں بھی وہی بلکہ اس سے بدتر حالات تھے اور عوام اپنی اجتماعی طاقت سے لاعلم سرمایہ داروں کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے کہا جاتا ہے کہ ظلم جب حد سے گزر جاتا ہے تو فنا ہو جاتا ہے فرانس میں بھی جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو عوام نے ہتھیار اٹھا لیے اور چن چن کر ان ظالموں کو ختم کردیا جو صدیوں سے ان پر ظلم کر رہے تھے۔