Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bari Corruption

Bari Corruption

سرمایہ دارانہ نظام کرپشن سے شروع ہوتا ہے، کرپشن پر ختم ہوتا ہے۔ نچلے طبقات میں بھی یہ بیماری عام ہے۔ چھوٹی کرپشن کو رشوت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف قانون اور انصاف بھی ایکٹیو ہوتے ہیں، اسی چھوٹی کرپشن کا ارتکاب کرنے والے نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، اس کرپشن سے نہ حکومتیں متاثر ہوتی ہیں نہ اکانومی متاثر ہوتی ہے۔

البتہ بھاری کرپشن سے معیشت بھی متاثر ہوتی ہے اور حکومتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کرپٹ لوگوں کی کرپشن روکنے اورکرپٹ ایلیمنٹ کو پکڑنے کے لیے جو ادارہ کام کر رہا ہے اس کا نام ہے نیب۔ نیب کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہے جس کا میڈیا میں ذکر ہوتا ہے۔

نیب کے سربراہ جاوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ نیب نے اب تک 23 ارب روپے کرپشن کے حوالے سے برآمد کیے ہیں۔ کوئی غریب اس قسم کی کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیونکہ یہ بھاری کرپشن غریب طبقات کے بس سے باہر ہوتی ہے۔

کرپشن کے بارے میں میڈیا میں ایک عرصے تک بڑی بڑی خبریں چھپتی رہیں کیا وہ سب خبریں غلط تھیں، اگر نہیں تھیں تو کیا حکومتوں نے اس کی تحقیق کی اور وہ کون لوگ تھے جن کے حوالے دیے جاتے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے اربوں روپے برآمد کیے گئے وہ کون لوگ تھے اگر وہ خبریں درست تھیں تو پھر عوام فطری طور پر یہ جاننا چاہیں گے کہ جن لوگوں سے اربوں روپے برآمد کیے گئے کیا ان میں سے سیاستدان بھی شامل ہیں؟

اس ملک کے عوام کی قومی دولت کو انتہائی بے رحمی سے لوٹا جاتا رہا اور اب بھی لوٹا جا رہا ہے۔ اب لٹیروں ار ان کی کرپشن کے حوالے سے موجودہ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ چونکہ حکومت پر کرپشن کے الزامات کسی نے عائد کیے نہ ہی حکومت کی کرپشن ثابت کی جاسکی لہٰذا یہ اربوں روپوں کی کرپشن کا ارتکاب کرنے والی اشرافیہ خوش قسمتی سے احتساب سے بچی رہتی ہے۔

یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ دس بیس ہزار کی کرپشن کے ملزمان کو پکڑ کر لمبی لمبی سزائیں دی جاتی ہیں اور اربوں کی کرپشن کرنے والی ایلیٹ کو پیشیوں پر کورٹ جانے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی ہے کیونکہ بھاری فیس لینے والے ان کے وکلا ملزم کی بیماری کی درخواست دے کر اشرافیائی ملزم کو کورٹ حاضری سے بچا لیتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ ان امیر زادوں کو خواہ وہ میٹرک پاس بھی کیوں نہ ہوں اے اور بی کلاس دے کر انھیں گھر جیسی سہولت فراہم کرتے ہیں، اس حوالے سے وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ جب تک ایلیٹ کو قانون کی گرفت میں نہ لایا جائے، کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایلیٹ جب تک قانون کی گرفت میں نہیں آئے گی اور ان کے ساتھ جیل رولز کے مطابق سلوک نہیں کیا جائے گا؟ ایلیٹ جیل کے باہر اور جیل کے اندر عیش کرتی رہے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اشرافیہ کو فائیو اسٹار ہوٹلوں کی سہولتیں جیلوں میں ملتی رہیں تو انھیں جیل کاٹنے میں کیا دشواری پیش آسکتی ہے حتیٰ کہ انھیں رات میں اپنے گھر جانے کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے ملزمان کو بغیر مقدمہ چلائے اتنے عرصے تک جیل میں رکھا جاتا ہے کہ وہ پاگل ہو جاتے ہیں۔

ان قسمت کے ماروں کے لیے ایک الگ وارڈ ہوتا ہے جسے چریا وارڈ کہا جاتا ہے۔ یہ ہے جیل کے اندر ملزموں اور مجرموں کا حال۔ کیا ان شرمناک حقائق کا علم حکمران طبقے کو ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر حکمرانوں کو ان حالات کا پتا نہیں ہوتا تو اس کا ذمے دار کون ہوتا ہے؟ طبقاتی معاشرے کی یہ وہ افسوس ناک کہانیاں ہیں جو جیلوں سے باہر نہیں آتیں، کیا اس حوالے سے کوئی کمیشن بننا چاہیے جو جیلوں کے اندر ہونے والی ناانصافیوں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کی سہولتیں مہیا کرنے کی تحقیق کرے؟

جیلوں میں غریب طبقات کے ان قیدیوں کے ساتھ اس قدر نامنصفانہ سلوک کیا جاتا ہے کہ اگر اس کا نوٹس نہ لیا جائے تو یہ سخت ناانصافی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کے ساتھ اس قدر ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے کیا اس کا نوٹس لینے والا کوئی ہے؟ چریا وارڈ غریب قیدیوں سے بھرا رہتا ہے جو جیلوں میں ہونے والے مظالم سے دماغی توازن کھو دیتے ہیں۔