Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Corona Aur Awam Ka Mustaqbil

Corona Aur Awam Ka Mustaqbil

یہ بات باعث تشویش ہے کہ ملک کے عوام ایس او پیز پر عملدرآمد میں قطعی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں اور اس وباکے نقصانات کا ادراک رکھنے والے سخت پریشان ہیں کہ اگر صورتحال یہی رہی تو کرہ ارض کے انسانوں کا مستقبل کیا ہوگا۔

ہمارے میڈیا نے وارننگ دی ہے کہ آنے والے مہینوں میں کورونا اتنا شدید ہوگا کہ ایک دن میں کئی ہزار عوام لقمہ اجل بن جائیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے ذمے دار لوگوں کو غور کرنا چاہیے نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ اس کے تدارک کے لیے دن رات ایک کر دینا چاہیے۔ کیونکہ دنیا کے مستقبل کا تعلق ہماری آج کی کوششوں اور کامیابیوں سے ہے۔ مغرب جو اس قسم کے مسائل کو حل کرنے میں آگے آگے رہتا ہے اس بار خود اس وبا میں گلے گلے تک ایسا پھنسا ہوا ہے کہ اس کے لیے نہ جائے رفتن کی کوئی سبیل نظر آتی ہے نہ پائے ماندن کی۔

ہمارا انتظامی ڈھانچہ اس قدر بے ڈھب ہے کہ کوئی کام پلاننگ سے نہیں ہو رہا ہے ویکسین کی ایک بڑی کھیپ آئی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اس کھیپ کو 40 سال سے اوپر والوں کو لگایا جائے گا۔ سرکار کہہ رہی ہے کہ ویکسین لگانے کے خواہش مند اس حوالے سے اپنی رجسٹریشن کرائیں۔ تین کروڑ کی آبادی شہر کراچی میں متعدد جگہوں پر رجسٹریشن سینٹر بنائے جانے چاہئیں تاکہ عوام کو آسانی ہو۔

اس نااہلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا متعلقہ اسٹاف کس عقل مندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کورونا میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسی تناسب سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا ذمے دار کون ہے عوام کس کا گلہ پکڑیں کس سے رجوع کریں۔

انتظامیہ نے ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے فوج کو بھی طلب کرلیا ہے۔ عوام فوج کا بڑا احترام کرتے ہیں اگر فوج نے مخلصانہ انداز میں عوام سے ایس او پیز پر عملدرآمد کا کہا تو بے لگام عوام کے گلے میں لگام پڑ جائے گی ہماری سول ایڈمنسٹریشن اتنی کرپٹ اور بدنام ہے کہ عوام اس کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔ عوام میں فوج کا امیج بہت اچھا ہے عوام فوج کی سنتے ہیں تو اب یہ کام فوج کا ہے کہ وہ پیار محبت سے عوام کو سمجھائے کہ آج وہ جن ایس او پیزکی خلاف ورزیاں کر رہے ہیں وہ ان کا نقصان اور شدید نقصان ہے۔

بلاشبہ ویکسین کی آمد نے عوام میں بڑا حوصلہ پیدا کیا ہے اور عوام لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہوکر ویکسین لگا رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ویکسین فراہم کرنے والے ادارے بائیس کروڑ عوام کو ویکسین فراہم کریں گے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کو آخر کار ایس او پیز کی طرف ہی آنا ہوگا، ایس او پیز میں جتنی جلدی کی اتنا ہی فائدہ عوام کو ہوگا یہ ایک سادہ سی بات ہے جو عوام کی سمجھ میں آنی چاہیے۔

ہمارے منتظمین نے ایج وائز ویکسین لگا کر ایک منطقی طریقہ اختیار کیا ہے کم ازکم اس اسکیم کو تو کامیاب بنانا چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ عوام کے تعاون کے بغیر گورنمنٹ کی کوئی اسکیم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے ٹی وی سے بہت کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ الیکٹرانک میڈیا گلی گلی پہنچتا ہے اس کی رسائی اتنی عام ہونے کی وجہ امید ہے کہ عوام ایس او پیز کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہوں گے کسی اہم عوامی کام سے واقفیت کے بعد بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو اسے ہم انتظامیہ کی کمزوری نہیں کہہ سکتے۔ یہ کھلم کھلا عوام کی کمزوری ہے اور عوام کا خود اپنے مفاد میں ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا کیا غلط ہے؟

کورونا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے روزانہ ہزاروں معصوم عوام اس بلا کی نذر ہو رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں۔ انسان بڑا ذی شعور ہے جلد یا بدیر اس وبا کا بھی کوئی موثر علاج دریافت کرلے گا، لیکن آج عوام جس کسمپرسی کا شکار ہیں اس کے نکلنے کا کئی مستند طریقہ دریافت نہ ہو سکا ہے۔ عوام بڑے جاندار ہیں اتنے شدید نقصان پر وہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نہیں، ڈٹ کر کورونا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

پاکستان کی بائیس کروڑ کی آبادی میں مشکل سے چار فیصد ایسے ہوں گے جو ویکسین خرید کر لگا سکیں گے باقی عوام کا کیا بنے گا؟ جو ترقی یافتہ ملک ویکسین بنا رہے ہیں کیا وہ ویکسین کے فارمولے پسماندہ ملکوں کو فراہم نہیں کرسکتے ایسا ہونے کی صورت میں ویکسین پسماندہ غریب ملکوں کی پہنچ میں بھی آسکتی ہے اس طرح لاکھوں عوام موت کے بھیانک پنجے سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن وہ کون سا امر مانع ہے کہ ویکسین بنانے والے ترقی یافتہ ملک ویکسین کے فارمولے پوری احتیاط کے ساتھ عام نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں کیا مصلحت ہے سمجھ سے باہر ہے۔

صورتحال اتنی سنجیدہ اور خطرناک ہے کہ دولت اور ضرورت پر اس کو حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کورونا کی تیزی سے بڑھتی پھیلتی صورتحال کو نہ روکا گیا تو کرہ ارض پر انسانی زندگی کی بقا کا عمل دشوار ہوجائے گا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو کھرب پتی کہلاتے ہیں کیا دنیا کی تاریخ کے ایسے نازک وقت میں انھیں آگے نہیں آنا چاہیے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو انسانیت کی بقا اور مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔ کیا اشرافیہ دنیا کے مستقبل کو بچانے اور تابناک بنانے میں اپنا دھن دولت لگا سکتی ہے اور کیا اس موقع پر اسے دھن دولت کو استعمال کرنا چاہیے؟