کورونا غیر معمولی تیزی کے ساتھ پورے پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ پاکستان میں 22 کروڑ انسان رہتے ہیں جن کا علاج مشکل ہے۔ حکومت اپنی کوشش کر رہی ہے لیکن ضرورت کے تناسب سے کورونا کی مقدار بہت زیادہ ہے لیکن حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں رہنے والے ہر شخص کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک کام بہت اچھا کیا ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں سے ذاتی تعلقات بھی استوار کر لیے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے موقعوں پر بڑی مدد مل سکتی ہے اور مل رہی ہے۔ ویکسین کی مارکیٹ میں قیمت بہت زیادہ ہے۔ بارہ ہزار مین دو ڈوز۔ اس بھاری قیمت پر عام آدمی ویکسین حاصل کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے حکومت ہی کو یہ ضرورت پوری کرنا ہوگی اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ حکومت نے تمام عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ماہرین بار بار کہہ رہے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے لیکن اس حوالے سے حال یہ ہے کہ دو فیصد لوگ بھی احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔ احتیاط میں ماسک پہننا اور ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا ضروری ہے۔ ماسک اتنا مہنگا نہیں ہے کہ عام آدمی نہ خرید سکے۔ لیکن ملک کے 80 فیصد سے زیادہ عوام ماسک نہیں لگا رہے ہیں اور ایس او پیز پر عمل کرنے والے دو فیصد سے کم عوام ہیں۔ بازاروں میں رش کا عالم یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے چپکے رہتے ہیں۔
اب رمضان شروع ہوچکا ہے اور عام طور پر رمضان میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور چوراہوں پر بھیڑ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ رمضان میں ہر شخص افطار کی خریداری کے لیے باہر نکلتا ہے۔ حیرت ہے کہ موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر بھی عوام ایس او پیز کی مکمل خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں انھیں موت کا ذرہ برابر ڈر نہیں ہوتا۔
ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی روز کا معمول بن گیا ہے اس حوالے سے سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد سب سے زیادہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ یہ بہادری نہیں جہالت ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کورونا تیزی سے ملک بھر میں پھیل رہا ہے اور اس کے مقابلے میں علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کا نتیجہ اموات میں تیزی سے اضافے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
حکومت کی طرف سے بار بار عوام کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ایس او پیز پر سختی سے عمل کریں لیکن ہماری جہالت کا عالم یہ ہے کہ ہم وہ شرائط و ضوابط پر بھی عمل نہیں کر رہے ہیں جن پر آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے۔ رمضان کا مہینہ عوام کی عید کی خریداری کا مہینہ ہوتا ہے جسے عوام قرض سمجھ کر کرتے ہیں اگر کسی طرح عوام کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کا مطلب اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا ہے تو شاید انھیں اپنی جان کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد کا خیال آجائے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے استدلال اور حکومت کی اپیلوں کے باوجود عوام پر ایس او پیز پر عملدرآمد کا خیال کیوں نہیں آ رہا یہ ایک خودکشی سے کم نہیں اور وہ بھی اپنے ہاتھوں سے۔ کیا اتنا نقصان ہونے کے باوجود ہم ہوش میں نہیں آئیں گے۔
کورونا سے لاکھوں جانیں جا رہی ہیں لیکن ہمیں اب تک ہوش نہیں آ رہا ہے کیا اسے سادگی کہیں یا بڑی بے وقوفی۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ رمضان میں اس صورتحال میں اور زیادہ ابتری پیدا ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس بدترین صورتحال سے کس طرح چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
عوام ترغیب اور اپیلوں سے کوئی اثر لینے کے لیے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے یہی حال ترقی یافتہ ملکوں کا ہے جہاں ہم سے زیادہ جہل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی بے احتیاطی اب ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے اس کا ایک حل تو ایس او پیز پر زبردستی عملدرآمد ہے لیکن اس کے نتائج بھی اچھے نکلنے کے امکانات کم ہی ہیں ایک قانونی طریقہ یہ رہ جاتا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی ڈکلیئر کردی جائے اور دفعہ 144 نافذ کردی جائے شاید یہ نسخہ کام آجائے۔ کراچی جیسے بیدار شہر میں اس حوالے سے عالم یہ ہے کہ پچھلے دن تقریباً سارے شہر میں ٹریفک جام رہا اور عوام خوفزدہ حالت میں حالات کے نارمل ہونے کا انتظار کرتے رہے۔
رونا یہ ہے کہ یہ صورتحال ترقی یافتہ ملکوں میں بھی موجود ہے جہاں سول سوسائٹی بڑی فعال ہے۔ اصل میں ہماری انتظامیہ نے رشوت کے عوض قانون توڑنے کی کھلی آزادی دے رکھی ہے اور 72 سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں قانون کا احترام کیا گیا ہو جس کا نتیجہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
شاپنگ کے لیے آئے ہوئے لوگوں کی بے بسی کا عالم یہ تھا کہ بچے ایک طرف، ماں باپ ایک طرف ایک ہڑبونگ مچی ہوئی تھی کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ ویسے تو ہر عید پر ہی رش ہوتا ہے لیکن اس بار رمضان شروع ہونے سے قبل ہی جو صورتحال دیکھنے میں آئی وہ بڑی عبرتناک تھی۔