Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dunya Ki Taqseem, Insan Ki Taqseem

Dunya Ki Taqseem, Insan Ki Taqseem

بھارت سے چینی اور کپاس منگوانے کے فیصلے کو موخر کردیا گیا ہے، کیونکہ اس مسئلے کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے پورے پورے امکانات موجود تھے۔

دنیا بھر میں ایسے مسائل سے کئی ملک دوچار ہیں لیکن قومی مفاد کے پس منظر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف مل جل کر فیصلے کرتے ہیں جس کا فائدہ قوم کو حال اور مستقبل میں ہوتا ہے لیکن جہاں بے اعتمادی اور سیاسی مفادات آ جاتے ہیں تو اس قسم کے متنازعہ مسائل کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا بہت جلد بھارت سے چینی اور کپاس کی تجارت شروع کی جائے گی۔

ابھی اس فیصلے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہو پائی تھی حکومت کی طرف سے دوسرا بیان آگیا کہ چینی اور کپاس کی بھارت سے تجارت کے فیصلے کو موخر کردیا گیا ہے اگرچہ اس کی وجوہات نہیں بتائی گئیں لیکن اہل خرد جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، اگر یہ تاثر درست ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست کس قدر پست درجے پر پہنچ گئی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت یا اپوزیشن ایک دوسرے سے رابطہ کرکے اس مسئلے پر مشاورت کرتے قومی مفادات کے پس منظر میں ڈائیلاگ کرتے اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایسے فیصلے پر پہنچتے جو قوم کے اجتماعی مفادات کے مطابق ہوتا لیکن بات دراصل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی مفادات اس قدر عزیز ہوگئے ہیں کہ قومی مفادات کی اہمیت صفر ہوگئی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان بے اعتباری کا عالم یہ ہے کہ کسی مسئلے پر خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو یا کتنا ہی چھوٹا اتفاق رائے کا فقدان ہے دنیا میں کئی ملک ایسے ہیں جن کے درمیان بعض نازک مسائل پر اتنے شدید اختلافات ہیں کہ بات چیت کے ذریعے ان کا حل ممکن نہیں لیکن ان کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم ہیں اور تجارت بھی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے کہ اس کے آگے کسی مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں۔

آج کے دور میں تجارت ایک ایسا مسئلہ بن گئی ہے کہ اسے اولین اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ قوم کے اجتماعی مفادات کا یہی تقاضا ہوتا ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے جس میں لچک کا مطلب قوم سے غداری شمار ہوتا ہے، ایسے بدترین ماحول میں کسی ایسے مثبت اقدام کی توقع کرنا احمقانہ فعل شمار ہوتا ہے بلکہ اسے ملک دشمنی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس سنگین مسئلے میں بھارت کی ہٹ دھرمی اصل عنصر ہے۔ بھارت نے کشمیر پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا ہوا ہے کیونکہ کشمیر کے عوام بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے تعلقات ہی نہیں انضمام کو بہتر سمجھتے ہیں۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور کشمیر کا مسئلہ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کے منہ پر ایک تازیانہ ہے کسی جمہوری ملک میں عوام کی اکثریت کے فیصلے کو اس طرح روندا نہیں جاتا جس طرح بھارت روند رہا ہے۔

آیندہ کے مورخ اس حوالے سے بھارت کو جارح قرار دیں گے لیکن جہاں خود غرضی مستحکم ہوتی ہے وہاں الزامات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی یہی صورتحال مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی ہے لیکن اس حوالے سے بھارت اتنا ڈھیٹ بن گیا ہے کہ 72 سال سے کشمیر کی جو سیاسی حیثیت ہے اس کو پس پشت ڈالتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ بنا دیا ہے جو ایک بدترین سیاسی اور سفارتی بے ایمانی ہے۔

جیساکہ ہم نے ذکر کیا ہے دنیا میں ایسے ملک ہیں جن کے درمیان کشمیر جیسے مسائل موجود ہیں لیکن ان کے درمیان تجارتی تعلقات موجود ہیں اور تجارت کر رہے ہیں۔ پاکستان نے یہ موقف اختیار کر لیا ہے کہ جب تک کشمیر کی حیثیت بحال نہیں ہوتی ملکوں کے درمیان تجارت نہیں ہوسکتی۔ یہ شرط کتنی ہی معقول اور آئینی ہو اس پر عملدرآمد ہونے کے امکانات بہرحال نہ ہونے کے برابر ہیں۔

دونوں ملکوں کا شمار انتہائی پسماندہ ملکوں میں ہوتاہے دونوں ملکوں کے عوام انتہائی پسماندگی اور اوپر سے مہنگائی کا شکار ہیں اگر دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بحال ہو جائیں تو عوام کو نہ صرف اس امتیازی مہنگائی سے نجات مل سکتی ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی ایسے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن کا آج تصور نہیں کیا جاسکتا۔