پی ڈی ایم کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس بار ملک کے مختلف علاقوں میں جلسوں کی تاریخیں دی گئی ہیں، پیپلز پارٹی جو متحرک دو پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سے ایک تھی وہ اب پی ڈی ایم چھوڑ چکی ہے یوں اب پی ڈی ایم میں صرف مسلم لیگ(ن) کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہزاروں رضاکار ہیں۔ باقی کبھی کبھی جب اپوزیشن اپنی پوزیشن کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے پارٹیوں میں سے ایک دو پارٹی رہنما پی ڈی ایم کی میٹنگ میں نظر آتے ہیں باقی 11پارٹیوں کا صرف کام چلتا ہے۔
ہم نے پہلے بھی لکھا ہے اب بھی لکھ رہے ہیں کہ سیاست میں ہمیشہ پارٹیوں کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ کون سی ایمرجنسی آگئی ہے کہ ملک بھر میں جلسوں کے پروگرام دیے گئے ہیں، کیا موجودہ حکومت احسن طریقے سے کام نہیں کر رہی ہے، سوائے مہنگائی کے جس میں حکومت کی نااہلی کا ہاتھ ہے باقی سارے معاملات ٹھیک طریقے سے چل رہے ہیں بلکہ عوام کو مختلف حوالوں سے ریلیف دیا جا رہا ہے۔
پانی کی قلت کے حوالے سے آج جو صورت حال ہے اس کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر آتی ہے کہ عشروں تک برسراقتدار رہنے کے بعد بھی سابقہ حکومتیں ڈیمز نہیں بنا سکیں اب عمران حکومت دس ڈیموں کی تیاری کر رہی ہے جو اگلے چار پانچ سال میں بن جائیں گے، غریب عوام کو مختلف حوالوں سے مدد دینے کے علاوہ گھر بنانے کے لیے قرض بھی دلا رہی ہے یہ اور اس قسم کے بہت سارے کام موجودہ حکومت کر رہی ہے کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے؟
عمران خان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، کام کر رہا ہے توتعریف کی جا رہی ہے کام نہیں کرے گا تو تنقید کی جائے گی یہ اہل الرائے کا اصول ہے۔ ملک میں چینی کا بحران پیدا کیا گیا۔ کیا ہم اسے اتفاق کہیں یا حقیقت کہ چینی کے زیادہ تر کارخانے اپوزیشن رہنماؤں کی ملکیت ہیں؟ کیا چینی کی مہنگائی اور قلت میں ان سیاستدانوں اور شوگر مل مالکوں کا ہاتھ ہے؟ یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس کی تحقیق ہونی چاہیے تاکہ اصل مجرموں کا پتا چل سکے جو معیشت کو تہہ و بالا کرتے رہتے ہیں۔
عمران حکومت عوامی مفادات کے بہت سارے کام کر رہی ہے لیکن عمران حکومت کا میڈیا سیل اتنا سست ہے کہ خود اپنی حکومت کے کیے ہوئے کام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی زحمت نہیں کرتے، عوامی دباؤ کے پیش نظر شوگر مافیا کی تحقیق کی بات چل رہی ہے، شوگر مل مالکان تڑی دے رہے ہیں کہ اگر تحقیق کی کوشش کی گئی تو ہم چینی کی قیمتیں اور بڑھا دیں گے۔ اس بلیک میلنگ کا مقصد چینی کی قیمتیں بڑھا کر کروڑوں روپے کمانے والوں کو تحقیق سے بچانا ہے یہ کھلی بلیک میلنگ ہے جس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ ایک بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کا ایڈمنسٹریشن انتہائی کمزور ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
اپوزیشن عوام کو حکومت کے خلاف موبلائز کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے کارکن ہیں جو ہمیشہ پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں صرف ایک مذہبی جماعت کے ہزاروں رضاکار ہیں۔
عمران خان کی میری حمایت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے اس اقتدار مافیا سے عوام کا پیچھا چھڑایا جو عشروں سے عوام کے سروں پر مسلط تھی۔ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں ان کو بہت سی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے مثلاً نوکریوں کی بات کو لے لیں خان صاحب نے کہہ دیا کہ ہم عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور عوام کو پچاس لاکھ مکان بنا کر دیں گے اگرچہ کہ یہ دعوے خلوص دل سے کیے گئے لیکن یہ دعوے سیاسی ہیں جن کے پورے نہ ہونے سے عوام میں حکومت کا اعتبار ختم ہو سکتا ہے۔
جب حکمران کوئی بات کرتا ہے تو متعلقہ ذمے داروں سے پوری معلومات حاصل کرلیتا ہے لیکن لگتا ہے کہ موجودہ حکمران کسی ایشو پر بات کرنے سے پہلے متعلقہ ماہرین سے کوئی مشورہ نہیں کرتے یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے جس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر جتنی توجہ دینی چاہیے نہیں دی جا رہی ہے جو غلطی ہے۔