کورونا ایک وائرس جس کے نام سے ساری دنیا کانپ رہی ہے۔ اس وائرس نے پاکستان سمیت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تعلیمی ادارے، ٹرانسپورٹ بار بار بند کیے جا رہے ہیں ہر ممکن احتیاط کی جا رہی ہے لیکن پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو ایس او پیز سے آزاد ہیں۔ حیرت ہے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینہ اس طرح پھلا رہے ہیں جیسے کوئی بڑا معرکہ سر کرلیا ہے۔
یہ ایک ایسی تباہ کن بیماری ہے جس میں انسان موت کا ایسے خوفناک انداز میں سامنا کرتا ہے کہ دیکھنے والے خوف سے ادھ موئے ہوکر رہ جاتے ہیں عالمی سطح پر پھیلنے والی اس خطرناک وبا میں اب تک صرف پاکستان میں چودہ ہزار سے زائد انسان موت کا شکار ہوچکے ہیں اور روزانہ سو کے لگ بھگ مریض جاں بحق ہو رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی اس سے زیادہ دہشت ناک بیماریاں دنیا میں آچکی ہیں اور شاید انسانیت کو آج سے زیادہ نقصان پہنچا چکی ہوں۔ بدقسمتی سے بڑی کوششوں کے بعد اس وائرس کی ویکسین تیار کرلی گئی ہے اور ساری دنیا کے ملک اس ویکسین کو کسی نہ کسی طرح حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس وبا کی خاص بات یہ ہے کہ اس علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے حکومت نے احتیاط کے حوالے سے ایس او پیزکے نام پر کچھ احتیاطیں بتائی ہیں اور حکومت کا خیال ہے کہ ایس او پیز پر عمل کرنے والے بڑی حد تک اس مصیبت سے بچے رہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا دوا سے زیادہ کارآمدہے۔ کیا ہم اسے لاپرواہی کہیں یا جہل کہ ان احتیاطی تدابیر پر دو فیصد لوگ بھی عمل نہیں کر رہے ہیں اور بڑی شان سے ماسک کے بغیر گھوم پھر رہے ہیں۔ پسماندہ ممالک میں ان وباؤں سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے لیکن یہ ایک ایسی وبا ہے جو پسماندہ ملکوں سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کا جانی نقصان ہو رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بیماری پہلی بار متعارف ہوئی ہے یا انسانوں کو آج سے پہلے بھی اس سے سابقہ پڑ چکا ہے اگر سابقہ پڑ چکا ہے تو کیا اس کی شدت آج جیسی ہی تھی۔ ہر دو صورتوں میں متعلقہ طبی ماہرین نے اس پر تحقیق کی اور اس کی موثر ویکسین بنانے میں کامیاب رہے۔
اس حوالے سے پہلی ضروری بات یہ ہے کہ ویکسین کی جو قیمت رکھی گئی ہے وہ عام غریب انسان کی پہنچ سے باہر ہے جس کا مطلب یہ ہے کروڑوں غریب ویکسین خرید ہی نہیں سکتے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اس میں سے کتنے فیصد ایسے لوگ ہیں جو یہ ویکسین خرید سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ویکسین نہ خرید سکنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اگر یہ درست ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا بچاؤ کس طرح ممکن ہے کیا صرف ایس او پیز سے انسان اس وبا سے بچ سکتا ہے؟
ہمارے ملک میں کروڑ پتیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر وہ اپنی دولت کا ایک حصہ کورونا فنڈ میں دے دیں تو امید ہے کہ ویکسین سے ملک کے بے شمار غریب عوام بھی مستفید ہو سکتے ہیں لیکن کیا دولت مند طبقہ غریب طبقات کی جانیں بچانے کے لیے اتنی "قربانی" دے سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب واضح ہے کہ دولت مندوں کی اکثریت اس قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی۔ ہمارے محترم دولت مندوں جن میں کروڑ پتی اور ارب پتی شامل ہیں خوشی سے اپنی دولت کا ایک معقول حصہ کورونا فنڈ میں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
کیونکہ دولت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اس سے محرومی کی بات تو بڑی دور کی ہے اس میں کمی کے لیے بھی یہ مخلوق تیار نہیں ہوگی۔ اگر صورت حال یہی ہوتی ہے تو حکومت کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ کورونا فنڈ کے نام پر ایلیٹ سے اس کی دولت کا اتنا حصہ لے کہ سارے غریبوں کو کورونا ویکسین کے استعمال کا موقعہ مل سکے۔
یہ کام ایلیٹ خوشی سے نہیں کرے گی بلکہ کورونا فنڈ بہ جبر وصول کرنا پڑے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ وائرس دنیا کے کسی خاص ملکوں میں متعارف نہیں ہے بلکہ ساری دنیا اس وائرس سے متاثر ہے اس حقیقت کے پیش نظر دنیا بھر کی ایلیٹ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے ملکوں کو مجبور کرے کہ وہ غریب ملکوں کو زیادہ سے زیادہ ویکسین فراہم کرے۔ اصل مسئلہ دولت کی غیر مساویانہ اور ظالمانہ تقسیم ہے کورونا ایک وائرس ہے اور اس کی "آمد" کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں۔
ایک کورونا وہ ہے جس کا سامنا غریب انسان کو ہر وقت رہتا ہے اور وہ کورونا "غربت" ہے جس سے غریب طبقات کو ہر روز سامنا رہتا ہے عالمی تحقیقی اداروں کے مطابق ہر سال 25 لاکھ انسان بھوک سے مر جاتے ہیں ہر سال 25 لاکھ انسان بیماریوں سے مر جاتے ہیں اس کا ذمے دار کون ہے اور اس پر کس فنڈ سے قابو پایا جاسکتا ہے؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک ایک ایسا ہنگامی فنڈ قائم کریں جو کورونا جیسے وائرس سے نمٹ سکے۔ امیر طبقات کے لیے ہماری ویکسین سو گنا زیادہ قیمت کی ویکسین آسانی سے خرید سکتے ہیں موت ان سے دور بھاگتی ہے لیکن دنیا کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ کورونا ویکسین تو دور کی بات ہے کوئی اینٹی بائیوٹک خریدنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ اس ظالمانہ نابرابری کا خاتمہ کیسے ہو۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ دولت کی تقسیم کا ایک ایسا منصفانہ نظام قائم کیا جائے جس میں کسی کے پاس پچاس ارب ڈالر نہ ہوں کسی کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ہو۔