وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی کابینہ نے 226 اجلاس کیے جب کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے 1/4 سے بھی کم اجلاس کیے۔
کابینہ کے اجلاسوں میں تحریک انصاف کی حکومت کو بلاشبہ دوسری جماعتوں پر سبقت حاصل ہے لیکن عوام اجلاسوں کی کمی یا زیادتی سے کسی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ نہیں کرتے بلکہ کارکردگی سے موازنہ کرتے ہیں۔
جب ہم اس حوالے سے موجودہ حکومت کا جائزہ لیتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے کہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں نہ عوام کی غربت میں کمی آئی نہ بے روزگاری میں ہی کوئی کمی آئی، پھر چاہے جتنے اجلاس کرلیں تو بھی بے معنی ہیں۔
حکومتی وزیراگر غربت اور بے روزگاری میں کمی کا مژدہ سناتے تو بلاشبہ اس کو ہم کارنامہ مانتے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کے دور حکومت میں اجلاسوں کی کمی اور موجودہ دور حکومت میں اجلاسوں کی زیادتی کا موازنہ عام سی بات بن جاتی ہے، موازانہ تو نظر آتا ہے کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔
ہم پی ٹی آئی حکومت کی حمایت اس لیے کرتے آئے ہیں کہ میری دانستہ میں وہ مڈل کلاس کی حکومت ہے۔ حکومت بے شک مستقبل کے لیی اچھی پلاننگ کر رہی ہے لیکن عوام حال کو دیکھتے ہیں کہ حکومت نے ان کے لیے کیا کارنامے انجام دیے ہیں۔ عالمی حالات کو عوام نہیں جانتے ملکی حالات سے وہ کسی حد تک واقف ہوتے ہیں اور ملکی حالات یہ ہیں کہ عوام کی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں، غریب طبقے کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے عام آدمی آج بھی بے روزگاری کا شکار ہے۔
بدقسمتی سے حکومت نے ایسے اقدامات نہیں کیے جو مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی لاسکتے ہوں ملک کے مستقل دورے اچھی بات ہے، ان سے عوام کے حالات کا پتا چل سکتا ہے لیکن سوال عوام کے مسائل خاص طور پر مہنگائی میں کمی کا ہے جس کا عوام براہ راست شکار ہوتے ہیں حتیٰ کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس بھی ان مشکلات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
سابقہ حکومتوں نے ایک چالاکی یہ کی تھی کہ وہ اربوں روپے قرض لیتے تھے اس میں سے کچھ پیسہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے خرچ کرتے تھے لیکن جب سے کرپشن کی داستانیں باہر آنے لگیں تو عوام کی ان سے نفرت بڑھنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ مہنگائی ہے لیکن یہ سب ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ ہماری کاروباری اشرافیہ نے ہوشربا منافع کمایا، وہ تو امیر سے امیر تر ہوگئے لیکن مہنگائی میں اضافہ کرکے غریبوں کو مزید غریب بنادیا۔
عوام بڑے بھولے بادشاہ ہیں۔ وہ دوست دشمن میں امتیاز کرنے میں بہت لبرل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام دشمن اشرافیہ 60 سال سے زیادہ عرصے سے اس ملک کی بادشاہ بنی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اس ملک کی بے تاج بادشاہ اشرافیہ کو اقتدار سے نکال باہرکیا۔ ان پر چالاک اشرافیہ یہ الزام لگاتی ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ لے کر آئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری اشرافیہ احتسابی اداروں کی اتنی مخالف کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتسابی ادارے کرپشن کے اربوں روپے برآمد کرچکے ہیں اور یہ کام ابھی جاری ہے، اشرافیہ نے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی اور اربوں روپے کی لوٹ مار کی مرتکب ہے۔
اسی لیے اشرافیہ ان اداروں خاص طور پر نیب کی دشمن بنی ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے اشرافیہ کو عوام کی رتی برابر سپورٹ نہیں مل سکتی لیکن اس حقیقت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر عوام کے مسائل خاص طور پر مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے الیکشن میں موجودہ حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا۔