جس دنیا کا نظام انصاف پر مبنی نہ ہو وہ دنیا نفرتوں اور بے چینیوں کا اکھاڑہ بنی رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنی ضرورتوں سے زیادہ دولت رکھتے ہیں، کیا وہ ملک اور قوم کے مجرم نہیں ہیں؟
المیہ یہ ہے کہ اس ناانصافی کا محافظ قانون اور انصاف ہوتا ہے کیونکہ یہ قانون ہی ہے جو نجی ملکیت کی حفاظت کرتا ہے ایسے معاشرے جن میں لامحدود نجی ملکیت کو قانون کا تحفظ حاصل ہوکبھی مطمئن نہیں ہوتے۔
ایک نفرت وہ ہوتی ہے جو نظر آتی ہے دوسری نفرت وہ ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی صرف دلوں اور دماغوں میں کھولتی رہتی ہے قانون اور انصاف چونکہ اس نفرت کو باہر آنے نہیں دیتا اس لیے وہ اندر ہی اندرکھولتی رہتی ہے اور جب یہ نفرت خوف سے آزاد ہوکر سڑکوں پر آتی ہے تو کہیں انقلاب فرانس بن جاتی ہے، کہیں انقلاب روس بن جاتی ہے۔
وہ ملک جہاں معاشی ناانصافیاں عام ہوتی ہیں، ان ملکوں کے عوام کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بصورت آتش فشاں موجود ہوتے ہیں اور جب وہ اپنے اندر پکتے اور بھڑکتے لاوے کو باہر آنے سے روکنے کے قابل نہیں ہوتے تو ان کے اندرکا آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے اور اس کے پھیلاؤکی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو جلا کر خاک کردیتا ہے۔
یہ بات تو سب کہتے ہیں کہ غریب لوگوں کی زندگی بہت دشوار ہوگئی ہے، دو وقت کی روٹی حاصل کرنا عام آدمی کے لیے دشوار ہے لیکن اس قسم کی باتیں کرنے سے نہ غربت دور ہو سکتی ہے نہ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں دو وقت کی روٹی کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ انسانی حقوق میں زندہ رہنے کے حق کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندہ رہنے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں کیا انسان کو میسر ہیں؟ مثلاً غذا، پانی، رہائش وغیرہ، کیا انسان اپنی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہے، اگر نہیں ہے توکیوں؟
ہمارے سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے بڑا مسئلہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسہ چاہیے اور پیسہ عام انسان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ کیوں؟ اس سوال کا یہ واضح جواب ہے کہ دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہے عام آدمی کی آمدنی لگی بندھی اور اس کی ضروریات سے کم ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دولت نہیں ہے یا اس کی تقسیم غلط ہے۔ دولت بہت ہے لیکن عام آدمی سے دور مٹھی بھر انسانوں کی گرفت میں ہے اور اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ارتکاز دولت پرکوئی پابندی نہیں ہے، لاکھوں کروڑوں اربوں کی دولت اگر مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو تو دولت کی منصفانہ تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس نظام کا ظلم اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کی جائز خواہشات کو دبانے کے لیے ان عوام ہی کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے جسموں پر وردی ڈال دی جاتی ہے۔ وردی جو عوامی خوف پر کفن بنی رہتی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ اس عوام کے آتش فشاں کو باہر آنے سے روکنے کے لیے عوام کی بے حسی ہی کام آتی ہے۔ عوام کو اس آتش فشاں کی طرف جانے سے روکنے کے لیے فریب استعمال کیا جاتا ہے جو کہیں محترم نظریات کی شکل میں ہوتا ہے تو کہیں خوف کی شکل میں ہوتا ہے اس خوف کی دیوار کو توڑے بغیر انصاف کا حصول ممکن نہیں۔
اس معاشی ناانصافی سے چھٹکارا دلانے میں اہل قلم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام سادہ لوح قانون سے خوفزدہ عوام کے دلوں میں جو نفرت ہوتی ہے اسے باہر لانے کے لیے عوام کو حقائق بتانا اور ان کے ذہنوں سے اس خوف کو نکالنا ضروری ہوتا ہے جو قانون کی شکل میں عوام کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ یہ کام اصولاً سیاستدانوں کا ہوتا ہے لیکن جس دنیا میں سیاستدان خود اس خوف کو مضبوط کرتے ہوں ان ملکوں اور معاشروں میں اہل فکر، اہل علم اور اہل دانش کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس خوف سے عوام کو نجات دلائیں۔
یہ خوف کسی خاص ملک اور معاشرے میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیلایا گیا ہے کہ عوام مستقل خوفزدگی کے عالم میں رہیں وہ لوگ عوام کا سرمایہ عوام کی امید عوام کا بہتر مستقبل ہیں جو اس خوف کو عوام کے ذہنوں سے مختلف حوالوں سے کھرچتے رہتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تحریروں کو جس اہتمام کے ساتھ عوام کی خدمت میں پیش کیا جانا چاہیے کہ وہ اسے پڑھنے میں دلچسپی لیں ماضی میں ایسی پارٹیاں ایسی جماعتیں ہوتی تھیں جو اس قسم کی تحریروں کو پڑھنے میں عوام سے تعاون کرتی تھیں اور ان میں اشتیاق پیدا کرتی تھیں، آج کل اشتیاق ایک حرف غلط بن گیا ہے۔
فضول بے کار سرگرمیوں میں وقت ضایع کرکے انقلاب کا نام بدنام کرتی ہیں۔ انقلاب کے لیے ذہنوں میں آگ جلانا پڑتی ہے۔ عالمی میڈیا کہتا ہے کہ ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے، بیماری سے، بے روزگاری سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ اس نظام کا المیہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ کیا اس نظام کو نہیں بدلا جانا چاہیے جو ظلم اور ناانصافیوں کا مجموعہ ہے اور اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے والے وہ عظیم انسان ہیں جو آج گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔