حکومت پرالزامات کا سلسلہ شروع ہے، اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ حکومت کرپٹ ہے، اس کا اوڑھنا بچھونا کرپشن ہے، اور وہ کرپشن کے الزامات سے بچنے کے لیے اپنے وزرا کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔ حکومت پر تنقید یا الزامات لگانا سیاست میں ایک روایت بن چکی ہے۔
کسی پر کوئی الزامات ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے سیاستدان اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ہم نے کرپشن کے خلاف لکھنے میں ذرہ برابر رعایت نہیں کی۔ حکومت کی نااہلی کی ہمیں بھی شکایت ہے، وزیراعظم اس طرح حکومت نہیں چلا پا رہے ہیں، جس طرح چلانا چاہیے۔
یہ ان کی ناکامی ہے مثلاً مہنگائی ہے، ہماری کرپٹ اشرافیہ نے بڑی کلاکاری سے اپنے ڈیلزر کے ذریعے مہنگائی کو آسمان پر پہنچایا لیکن عمران خان نہ اس کے ماخذ کو سمجھ پائے نہ اسے کنٹرول کرسکے۔ یہ حکومت کی نااہلی ہے لیکن جہاں تک حکومت پر کرپشن کے الزامات ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ کرپشن چھپتی نہیں، وہ ہر حال میں ظاہر ہو کر ایلیٹ کو بے نقاب کردیتی ہے۔ الزام لگاتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ عوام کا اس قسم کے الزامات پر ردعمل کیا ہوگا؟
ہماری حکمران اشرافیہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی اقتدار میں چلی رہی ہے لہٰذا نظام میں اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اسے اقتدار سے الگ نہیں کیا جا سکا۔ کرپشن کے الزامات میں سر سے پاؤں تک دھنسی ہوئی حکمران اشرافیہ تاحال دولت پر کنٹرول قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔
حکمران طبقہ ترقیاتی پروگراموں گردان کرتا ہے لیکن عوامی مسائل کے حل کی طرف سے وہ غافل ہے۔ آئے دن مختلف ترقیاتی اسکیموں کا افتتاح کرنا اور پھر ان منصوبوں کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے ترقیاتی اسکیموں کے اعلان میں لگ جانے کی وجہ سے عوام مایوسی کا شکار ہیں۔ عوام کی رہائش کے لیے لاکھوں مکان بنانے کے اعلان کے بعد حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اسی حوالے سے کتنی پیش رفت ہوئی ہے۔ اسی طرح عوام کو لاکھوں سے زیادہ نوکریاں دینے کے اعلان کے بعد حکومت پھر غائب ہوگئی ہے یا فرض نبھانے کی خاطر چند لوگوں کو نوکریاں دے کر کروڑوں نوکریاں دینے کے وعدوں سے آزاد ہوگئی ہے۔
بجٹ سر پر آ رہا ہے اگر اس بجٹ میں عوام کو قابل ذکر رعایتیں نہ دی گئیں تو عوام حکومت سے بدظن ہونے میں حق بجانب ہوں گے۔ عوام زبانی لمبے لمبے وعدوں سے اب بے زار ہوگئے ہیں وہ اب اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے جو بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں کیا ان میں کوئی عوامی مفادات کی شق بھی ہے، عوام بجا طور پر اس حوالے سے حکومت کا جواب چاہتے ہیں۔
بہرحال ہماری اپوزیشن بھی کوئی دودھ کی دھلی نہیں ہے اور وہ بھی کوئی ڈیل کرنے کے لیے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے الزامات کی سیاست کر رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مرکز میں 5سال حکومت کی ہے جب کہ سندھ میں اسے حکومت کرتے ہوئے 13برس ہونے کو ہیں۔
اس دوران حکومت کی کارکردگی کیسی رہی وہ سب پر عیاں ہے۔ آج بھی پیپلز پارٹی کے لیڈر مقدمات بھگت رہے ہیں، سندھ میں ترقیاتی کاموں اور صحت کی سہولتوں اور تعلیمی نظام کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب یہی جماعت عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت پر نااہلی اور کرپشن کے الزامات عائد کر رہی ہے لیکن وہ اپنی ناقص کارکردگی پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ کہتی ہے کہ ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کی حکومت مرکز میں بھی رہی اور پنجاب میں بھی رہی ہے۔ اس حکومت نے اپنے دور میں جو کچھ کیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آج مسلم لیگ ن کی قیادت بھی کرپشن مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنے مقدمات عدالتوں سے کلیئر کرائے، وہ عمران خان اور تحریک انصاف پر کرپشن کے الزامات عائد کر رہی ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ اسے برسراقتدار آتے ہی سنگین مسائل نے گھیر لیا۔ آغاز میں ہی مالی مشکلات کے پہاڑ سے نبردآزما ہونا پڑا، اسی دوران بھارت کی جارحیت ہو گئی۔ حکومت کی ساری توجہ اس جانب مبذول ہو گئی۔ پھر بیوروکریسی کے چند لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہاں بحران پیدا ہو گیا۔
بیوروکریسی نے کام کی رفتار سست کر دی۔ یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ کورونا کی آفت نازل ہو گئی، کورونا وبا نے ملکی معیشت کو تلپٹ کرکے رکھ دیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اسی دوران اپوزیشن کے جلسے جلوس ہوتے رہے۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کا موقع کہاں تھا۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔