ایک طویل بحث و مباحثے کے بعد آخرکار پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تین منٹ کی پریس کانفرنس میں لگا تار ہونے والے اجلاسوں کا نتیجہ سنا دیا کہ اب نہ استعفے دیے جائیں گے، نہ لانگ مارچ ہوگا۔ یعنی ملک جس طرح چل رہا ہے، اسی طرح چلتا رہے گا، اس ناکامی کی وجہ یہ رہی کہ آصف علی زرداری نے کہا کہ تحریک اب اس وقت چلے گی، جب میاں نواز شریف پاکستان آئیں گے۔
آصف زرداری کی بات سو فیصد درست ہے کہ پی ڈی ایم کی دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ اگر فیصلہ کن اجلاس میں شریک نہ ہوں تو فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس اعلان کے بعد اجلاس میں موجود سیاسی قائدین کے چہروں پر مایوسی چھا گئی اور شرکائے محفل مایوس ہو کر چلتے بنے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہمیں بھی بہت افسوس ہوا۔ اصل مسئلہ عمران خان کو گھر بھیجنے کا تھا جو لٹک گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اصل جمہوریت تو مڈل کلاس کا برسراقتدار ہوناہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو جمہوریت پر اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔ یہاں مٹھی بھر ارب پتیوں کی جمہوریت ہے، عوامی جمہوریت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب پی ڈی ایم کی اصل لیڈر مریم نواز شریف بن چکی ہیں، پی ڈی ایم کے اس انجام سے انھیں بڑا شاک پہنچا ہے، اس کا اندازہ مشکل ہے۔ لندن میں بیٹھے میاں صاحب کو بھی فضل الرحمن کی تین منٹ کی پریس کانفرنس سے جو مایوسی ہوئی، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے۔ نواز شریف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
پاکستان میں جو جمہوری نظام چل رہا ہے، اس کو ہم آسمانی جمہوریت کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ کبھی زمین پر آنا پسند نہیں کرتی، جس جمہوریت میں دس بیس ارب پتی نہ ہوں اسے بھلا کیسے جمہوریت کہا جاسکتا ہے۔ دو سے تین کروڑ کی گاڑی جس ممبر پارلیمنٹ کے پاس نہ ہو وہ بھی کوئی جمہوریت ہو سکتی ہے؟
مولانا فضل الرحمن بڑی محنت اور جانفشانی سے اپوزیشن کا امیج بناتے ہیں لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ یہ شاندار امیج منٹوں میں مسخ ہو جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولانا ہی کی کاوشوں سے اپوزیشن کی شکل بنی اور انھوں نے ہی اپنے خون جگر سے اسے پالا پوسا، جوان کیا اور امید تھی کہ اگر اپوزیشن جیت جاتی تو مولانا کو کم ازکم نائب وزیر اعظم تو بنا ہی دیا جاتا۔ اس بار تو مولانا نے اپنی کوششوں سے پی ڈی ایم کو اقتدار کے بالکل قریب لانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی کہ ایک زرداری سب پر بھاری نے اپنے القاب کو سچ کر دکھایا۔ برا ہو سیاست کا کہ وہ اوپر چڑھنے والوں کو ایسے وقت دھکا دے دیتی ہے جب وہ لب بام رہ جاتے ہیں۔
اس صورتحال کا فطری طور پر سب سے زیادہ دکھ مریم نواز کو ہوا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا سے زیادہ کام مریم نے کیا، جب وہ تقریر کرتیں تو ہمارے ذہن میں حیدرآباد دکن کے رضاکار لیڈر قاسم رضوی کا چہرہ گھوم جاتا ہے۔ اب شاید مریم نواز دل شکستہ ہوجائیں لیکن ان کی فطرت اور جوش و ولولے کو دیکھ کر اندازہ یہی کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک بار پھرکھڑی ہوجائیں گی۔