کسان اور مزدور… زندگی کی گاڑی کو کھینچنے والی دوطاقتیں جن کی محنت سے دنیا میں رونق لگی رہتی ہے، کیا آپ نے کبھی ان کے گھروں کے اندر جا کر دیکھا ہے؟ بھوک، بیماری، غربت و افلاس کی تصویر۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ساری دنیا کو روشن رکھنے والوں کے گھروں میں اندھیرا کیوں؟ دنیا کو رنگ، نسل، زبان، قومیت اور مذہب میں تقسیم کرکے شاہوں کی زندگی گزارنے والی مٹھی بھر اشرافیہ ایک طرف اقتدار پر قابض ہے تو دوسری طرف مزدوروں، کسانوں اور غریب لوگوں کی دن رات کی محنت سے کمائی ہوئی اربوں کی دولت پر ان بھیڑیوں کا قبضہ۔ کیسا نظام ہے کیسا انصاف ہے؟ یہ ظلم اور ناانصافی کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں ملک کی دیہی آبادی کا 80 فیصد کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے دوسرا محنت کش طبقہ مزدور جس کی پاکستان میں تعداد ساڑھے چھ کروڑ بتائی جاتی ہے جمہوریت کے فراڈ کے پرچم لہرانے والو! ذرا بتاؤ تو کسان، مزدور اور غریب طبقات جن کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ بنتی ہے پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کتنی ہے۔ اشرافیہ تو بتا سکتی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مزدور اور کسان وزرا کتنے ہیں، بیوروکریسی میں جو ملکوں کو چلاتی ہے ان کی تعداد کتنی ہے؟
ہر بچہ فطرت کے لگے بندھے اصول کے مطابق صرف انسان کا بچہ بن کر پیدا ہوتا ہے لیکن اسے تم دین دھرم، زبان، قومیت جیسے سیکڑوں خانوں میں بانٹ کر اس کی اجتماعی طاقت کو تار تار کر دیتے ہو، یہی نہیں بلکہ اپنے ناپاک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے انھیں آپس میں لڑاتے ہو، اے ظلم کے شہنشاہو! تم کب تک یہ شیطانی کھیل کھیلتے رہو گے، کب تک دنیا کے مالکوں کو غلام بنائے رکھو گے؟ 22 کروڑ انسانوں کو تم نے حیوان بنا کر رکھا ہے تم نے انھیں قانون اور انصاف کی زنجیروں میں اس طرح جکڑ کر رکھا ہے کہ وہ ٹھیک سے حرکت بھی نہیں کرسکتے۔
ہمارے ملک میں دانشور بھی ہیں، مفکر بھی، عالم بھی ہیں فاضل بھی ہیں، ادیب بھی ہیں شاعر بھی ہیں، یہ لوگ حق اور انصاف کو سمجھتے ہیں غربت اور امارت کو اور اس کی وجوہات کو جانتے بھی ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے دعویدار بھی ہیں۔ ذرا اپنا پتا بتاؤ تاکہ میں تمہیں خط لکھ کر پاکستان کے 22 کروڑ اور دنیا کے 9 ارب کے لگ بھگ انسانوں کی زندگی کا حال بتاؤں، وہ کیا کھاتے ہیں۔
دن میں کتنی بار کھاتے ہیں، وہ کیا پہنتے ہیں، سال میں کتنے جوڑے سلواتے ہیں۔ تم نے شہر کی مارکیٹوں میں اور ٹھیلوں پر ترقی یافتہ ملکوں کے انسانوں کے اتار کر پھینکے ہوئے کپڑے اور جوتے ریڑھیوں پر فروخت ہوتے ہوئے دیکھے ہوں گے، جاؤ ذرا ان مارکیٹوں میں، عام غریب آدمی کو دھڑلے سے تعلیم یافتہ مڈل کلاس کے پریشان خالوں کو چوری چھپے نظریں بچاتے اپنی پسند کے کپڑے جوتے وغیرہ خریدتے دیکھا ہوگا۔ ان میں عالم بھی ہوتے ہیں
فاضل بھی ہوتے ہیں، شاعر بھی ہوتے ہیں، ادیب بھی ہوتے ہیں یہ چھپتے چھپاتے نظریں چراتے یہ مغرب کی اترنیں خریدتے ہیں ایک مٹھی بھر ایلیٹ وہ ہے جو عالی شان گاڑیوں میں بیٹھ کر عالی شان مالز یعنی مارکیٹوں میں سر اٹھائے جاتے ہیں جیب میں لاکھوں کی گڈیاں ہوتی ہیں جس چیز پر ہاتھ رکھ دیں جس چیز پر آنکھ اٹھا کر دیکھیں وہ منٹوں میں پیک ہو کر ملازموں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ بادشاہوں اور غلاموں کا ایک لمبا دورگزرا ہے ہم غلامی اور غلاموں کا بڑی نفرت سے ذکر کرتے ہیں۔ میں دنیا کی آبادی کے دو فیصد کی بات نہیں کر رہا۔
میں دنیا کی آبادی کے اٹھانوے فیصد آبادی کی بات کر رہا ہوں۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آج کے 8 ارب انسانوں کا حال ماضی کے ان غلاموں سے مختلف ہے جو دور غلامی میں زندگی کو غلاموں کی طرح گھسیٹتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ زندگی کی ہر نعمت زندگی کی ہر خوشی پر کیا دو فیصدہی کا حق ہے صرف دو فیصد 98 فیصد معاشی غلام کس کھاتے میں جاتے ہیں؟
جب تک تم دین دھرم، رنگ نسل، ذات پات، قومیت زبان کے حوالے سے تقسیم رہو گے غلام ابن غلام ہی رہو گے۔ جب تک اپنی طاقت کو نہیں پہچانو گے غلام ہی رہو گے، آج کی مہذب دنیا میں جسے غریب کہا جاتا ہے وہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ماضی کا غلام ہی ہے رات کے تین بج رہے ہیں۔ ٹی وی پر وزیراعظم کی بیماری کا بتایا جا رہا ہے، عمران خان کا تعلق طبقاتی حوالے سے مڈل کلاس سے ہے یہ بات ایلیٹ کو بہت ناگوار گزرتی ہے ایلیٹ ملک کے وزیر اعظم کا نام تحقیر سے لیتی ہے۔
یارو! 2005 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس ہوئی تھی اسے ہم بڑی یا تاریخی نہیں کہہ سکتے لیکن بہرحال تھی۔ ہم بھی بیماری کے باوجود اس میں شریک ہوئے تھے اب ایک مزدور کسان کانفرنس کی ضرورت ہے کامریڈ بہت سارے ضروری کام، میٹنگز اور اسٹڈی سرکل چھوڑ کر ایک عدد مزدور کسان، مشترکہ کانفرنس کریں اور کھلی سیاست میں آئیں جو باتیں کل چھپ کر کی جاتی تھیں آج دھڑلے سے وہ سرعام کہی جا رہی ہیں ڈرکیا ہے؟