Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Naye Daur Ke Naye Ghulam

Naye Daur Ke Naye Ghulam

اسے ہم اپنی بدقسمتی کہیں یا اشرافیہ کی بالادستی کہ ایک دوسرے پر بدترین الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے عوام کو سوائے کنفیوژن کے اور کچھ نہیں ملتا۔ حکومت اور اپوزیشن کا سیاسی بیت بازی میں ایسا مقابلہ ہوتا ہے کہ عوام حیرت سے سنتے رہتے ہیں اور سر دھنتے رہتے ہیں۔ الزام اور جوابی الزام کا ایک ایسا سلسلہ چل پڑتا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

اس الزامات اور جوابی الزامات میں عوام کا وقت اور ذہن خراب ہو جاتا ہے۔ اشرافیہ جب دو دھڑوں میں بٹ جاتی ہے تو ایک دوسرے کے ایسے کپڑے اتارتی ہے کہ انھیں دیکھ کرگھن آنے لگتی ہے۔ میڈیا کا سارا وقت اسی مصروفیت میں گزر جاتا ہے۔ ایلیٹ کے ارشادات عالیہ سے عوام کی دلچسپ معلومات میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن ان معلومات سے سوائے اشرافیہ کی نامناسب حرکات کے کچھ نہیں ملتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میڈیا صرف اشرافیہ کی بے ایمانیوں کی داستانیں سنانے کے لیے رہ گیا ہے یا اس سے قومی تعمیر نو کے حوالے سے بھی کچھ معلومات ملنی چاہئیں۔ عوام کو طبقاتی تفاوت کے حوالے سے کچھ نہیں معلوم اور ہمارا اصل مسئلہ ہی طبقاتی تفاوت کو عوام سے متعارف کرانا ہے کہ ایک غریب شخص کس طرح زندگی گزارتا ہے اور ایک ایلیٹ کس طرح زندگی گزارتا ہے جب تک یہ تضادات کا عوام کو علم نہ ہو، ان میں طبقاتی شعور پیدا نہیں ہوسکتا۔

کسان اور وڈیرے زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔ ایک صنعتکار اور ایک مزدور کی زندگی میں کیا فرق ہوتا ہے اور کتنا فرق ہوتا ہے اورکیوں فرق ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں عوام کو جب تک مکمل علم نہ ہو، ان میں طبقاتی شعور پیدا نہیں ہوتا اور جب تک عوام میں طبقاتی شعور پیدا نہیں ہوتا وہ طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

ہمارے ملک میں سیکڑوں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر ہیں یہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے دل میں رکھ کر اپنا سارا وقت بے کاری یا کسب معاش میں گزارتے ہیں یہ وہ ناانصافی ہے جب تک اس کا ازالہ نہیں ہوتا معاشرے میں کوئی بامعنی تبدیلی نہیں آسکتی۔

پاکستان کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں غریب کا سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے۔ ایسے پسماندہ ملکوں میں سب سے پہلے طبقاتی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کو اپنے حقوق کے بارے میں علم ہو اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرسکیں لیکن المیہ یہ ہے کہ عام آدمی کو یہی نہیں معلوم کہ طبقات کیا ہوتے ہیں اور معاشرے میں طبقات کی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ کام سیاستدان نہیں کرسکتے کیونکہ ایلیٹ کی حیثیت سے یہ سب سے بڑے استحصالی ہوتے ہیں دوسرے ملکوں میں میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر ایلیٹ کا قبضہ ہوتا ہے۔

پرائیویٹ میڈیا آزاد ہوتا ہے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ ایلیٹ کا بھونپو بننے کی بجائے عوام کا ترجمان بنے۔ ہماری معیشت کے علاوہ ہماری سیاست ہماری زندگیوں پر ایلیٹ کا قبضہ ہے۔ ایک عام آدمی صبح سے شام تک محنت کرتا ہے تو بہ مشکل اسے دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے اور ایلیٹ کی لوٹ مارکا عالم یہ ہے کہ ایک جھٹکے میں کروڑوں، اربوں روپے کما لیتی ہے۔ جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا غریب غریب تر امیر امیر تر ہوتے رہیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال سے نجات کیونکر حاصل ہو؟ اس کے لیے میڈیا پر ایلیٹ کے قبضے کو ختم کرنا ہوگا اور میڈیا کو غریبوں کا نمایندہ بنانا ہوگا۔ میڈیا ذہنوں کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ میڈیا کی باگ ڈور دانشوروں، مفکروں، شاعروں، ادیبوں کے ہاتھوں میں ہو۔ دنیا کی تاریخ میں ایک طویل دور غلامی رہا ہے اس دور میں غریب انسان کی حالت جانور سے بدتر تھی۔ دنیا کی تاریخ کے اس دور کو بدترین دور کہا جاتا ہے، اگرچہ غلامی کا دور ختم ہو چکا لیکن انسانوں کی بھاری اکثریت آج بھی غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہی ہے دن بھر جان لیوا محنت کا صلہ اگر دو روٹی ہو تو ایسے دور کو ہم غلامی کے دور سے بہترکیسے کہہ سکتے ہیں؟

الیکٹرانک میڈیا سیکنڈوں میں اپنی بات ساری دنیا تک پہنچا دیتا ہے اسی وجہ سے آج کی دنیا کو ایک گھر کہا جاتا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اس گھر یعنی دنیا کو انسان نے ہر طریقے سے جہنم بنا کر رکھ دیا ہے طبقاتی فرق کے علاوہ جنگوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ انسانوں کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے یعنی دنیا میں پائی جانے والی مخلوقات میں سب سے زیادہ برتر لیکن انسان نے اپنے رویے سے خود کو دنیا کی بدترین مخلوق ثابت کیا ہے آج ساری دنیا انفرادی لڑائیوں سے لے کر جنگوں تک ایسی ہولناک تباہیوں سے دوچار ہے کہ شاید تاریخ میں ایسا بدترین دور نہ گزرا ہو جس دنیا کو ہم تاریخ کی ترقی یافتہ دنیا کہتے ہیں اس کو ذرا اندر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ تاریخ کی اعلیٰ ترین دنیا نہیں بلکہ بدترین دنیا ہے۔ ماضی میں غلام داری سماج میں انسان کو جانور بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔

آج دنیا کی آبادی کا 80 فیصد حصہ جانوروں کی زندگی گزار رہا ہے دو فیصد آبادی بادشاہوں کی زندگی گزار رہی ہے کیا ماضی کے غلام داری سماج میں اور آج کے سرمایہ داری سماج میں کوئی فرق ہے؟ اس وحشیانہ نظام کو تبدیل کرنے میں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر موثر کردار ادا کرسکتے ہیں ہمارے ذرائع ابلاغ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ طبقاتی تفاوت کو اجاگر کرے اور عام آدمی کی زندگی کو عوام کے سامنے لائے۔