بہت کم لوگوں کو شاید اس بات کا احساس ہوا ہوگا کہ عمران خان نے اقتدار میں آکر جدی پشتی حکمرانوں سے عوام کی جان چھڑائی ہے، ہماری اشرافیہ کو اندازہ ہے کہ عمران خان نے ان کا کتنا بڑا نقصان کردیا ہے۔ دراصل انھوں نے اشرافیہ سے عوام کی جان چھڑا کر جو بڑا اور غیر معمولی کام انجام دیا یہ کام ہی اسے یاد رکھنے کے قابل بنا رہا ہے۔
عمران خان ہماری سیاسی ایلیٹ کا کتنا بڑا مخالف ہے اس کا اندازہ اشرافیہ کی ان سے ناراضگی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آج ہماری سیاسی اشرافیہ ان سے کس قدر ناراض ہے اس کا اندازہ اشرافیہ کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اشرافیہ اقتدار کے بغیر مچھلی بن پانی کی مثل کی طرح ہے اور حکومت کو گرانے کا ہر حربہ استعمال کرچکی ہے لیکن حکومت اپنی جگہ سے ہل کر نہیں دے رہی۔ اس صورتحال نے اشرافیہ کو پریشان کر دیا ہے کہ وہ جھنجھلا کر رہ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے اقتدارکو ڈھائی برس کا عرصہ بیت گیا ہے اور باقی ماندہ ڈھائی برس موجودہ حکومت بڑے آرام سے نکال لے گی۔ ظاہر ہے ہماری سیاسی اشرافیہ ہر قیمت پر حکومت سے گلوخلاصی چاہتی ہے اور اس کی جگہ اقتدار میں آنا چاہتی ہے، اگر ایسا ہوا تو یہ ایک سیاسی المیہ ہی ہوگا۔ پاکستان اگر اس بار اشرافیہ کے قبضے میں چلا گیا تو اشرافیہ اقتدارکو ہاتھوں سے نکلنے سے روکنے کے لیے ہر جتن کرے گی۔
یہ وہ بڑا خطرہ اور المیہ ہے جس کا کوئی شافی علاج ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اشرافیائی حکومتوں کو جمہوری حکومتیں سمجھتے رہے اور مزدوروں کسانوں کو آگے آنے نہ دیا۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اینٹی اشرافیہ اور صحیح معنوں میں جمہوریت کو چلانے والوں نے بھی مزدوروں کسانوں، صحافیوں اہل فکر کو پیچھے دھکیل کر رکھ دیا۔ اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایلیٹ نے ملک میں خاندانی حکمرانی کا کلچر اتنا مضبوط کردیا کہ ولی عہد تیار ہوچکے ہیں، اگر اس کلچرکو نہ روکا گیا تو خطرہ ہے کہ کہیں ہم مغلیہ دور میں واپس نہ چلے جائیں۔ اس خطرناک امکان کا مداوا کیا جائے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف ہر میدان میں مڈل اور تعلیم یافتہ لوئر مڈل کلاس کو آگے بڑھائے انھیں قانون ساز اسمبلیوں میں لانے کی کوشش کرے۔
یہ المیہ اور سازش ہے کہ صنعتکاروں، سرمایہ داروں اور دولت مندوں نے ہماری سیاست پر قبضہ پکا کرلیا ہے، عمران خان کے وزراء، مشیروں حتیٰ کہ ترجمانوں کا تعلق بھی مڈل کلاس سے ہے یہی وقت ہے کہ تعلیم یافتہ باصلاحیت لوگوں کو ڈھونڈ کر آگے لایا جائے ورنہ ان سب کی جگہ ایلیٹ کے نمایندے جگہ بنا لیں گے۔ یہ کام ایسے باصلاحیت لوگوں سے لینا ہے جو ساری صورتحال سے پوری طرح واقف ہوں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایلیٹ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جو بھرپور مہم چلا رہی ہے اس کا توڑ کیا جائے اور پارٹی میں دراڑیں ڈالنے سے بچا جائے۔ عمران خان کو ناراض کارکنوں کو منانا نہیں آتا کارکن بڑا ہو یا چھوٹا بہرحال کارکن ہوتا ہے اسے سیاسی کاموں میں مصروف رکھا جائے۔ جہانگیر ترین کے مسئلے کو غالباً ہینڈل کیا جاسکتا تھا لیکن اس کو بگاڑ دیا گیا۔ میرے خیال میں جہانگیر ترین تحریک انصاف سے جڑا رہنا چاہتا ہے اب یہ قیادت کی صلاحیتوں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ڈیل کرتی ہے۔
جہانگیر ترین ایک بڑا سرمایہ دار ہے وہ آیندہ پارٹی کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ ترین گروپ کو ٹوٹنے نہ دیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلیم یافتہ باصلاحیت لوگوں کو پارٹی میں لایا جائے۔ یہ مشورہ میرے نظریے کی نفی ہے لیکن پاکستان میں چونکہ ترقی پسند طاقتیں بکھری اور کمزور ہیں لہٰذا بڑی احتیاط سے کارکنوں کو مصروف رکھا جائے اور کسی فرد یا گروہ کو پارٹی سے ٹوٹنے نہ دیا جائے۔