طبقاتی استحصال کو مختلف حوالوں سے تحفظ فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ اقتصادی نظام کی دی ہوئی غربت اور امارت عزت اور ذلت کو قسمت کی عطا کہا گیا۔ اس فلسفے کو ناخواندہ اور عقل و شعور سے محروم عوام کے ذہنوں میں پیوست کیا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اشرافیہ کے طبقاتی استحصال کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے لامحدود نجی ملکیت کے حق کو آئین اور قانون کا تحفظ فراہم کردیا گیا اور یہ فلسفہ گھڑا گیا کہ ترقی کی دوڑ میں حصہ لینے کا ہر انسان کو برابر کا حق ہے حالانکہ 80 فیصد سے زیادہ انسانوں کو اس مقابلے سے عملاً باہر نکال کر پھینکا گیا۔
نئے سماج میں نہ طبقات ہونے چاہئیں نہ طبقاتی استحصال، دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک ایسا نظام رائج ہونا چاہیے کہ 80 فیصد عوام ایک آسودہ زندگی گزار سکیں۔۔ ہمارے ملک میں نوجوان بینکوں سے قرض پر گاڑیاں لے کر چلاتے ہیں اور ہر مہینے تقریباً تیس ہزار روپے بطور قسط ادا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں جب کہ کورونا نے مارکیٹ وغیرہ مفلوج کرکے زندگی کو جامد کردیا ہے، اب نوجوانوں کے لیے قسطوں کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہیں۔
حالات کی مہربانی سے سارا کاروبار ٹھپ ہے اور گاڑیاں رکھنے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ نوجوان سخت پریشان ہیں قسطیں ادا کرنے کی ان کے پاس کوئی سبیل نہیں ہے اور قسطیں کورونا کی طرح بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
سوال یہ ہے کہ نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے گاڑیاں قرض پر لینے والے جس پریشانی کا شکار ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوان فکر معاش میں اس طرح پھنس گئے ہیں کہ نہ وہ اسی حال میں رہ سکتے ہیں نہ اس عذاب سے باہر آسکتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم عوام خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حالت زار اور بے بسی دیکھیں تو ان کی آنکھوں میں پانی آجائے۔
عمران خان بلاشبہ نوجوانوں کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن نوجوانوں کے مسائل ایک طرح کے ہوں تو شاید حل ہو سکیں لیکن ان کے مسائل میں اتنی ورائٹی ہے کہ ان کا حل ہونا آسان نہیں۔ کورونا نے جہاں دوسرے نوجوانوں کو بے دست و پا بنا کر رکھ دیا ہے اسی طرح قسطوں پرگاڑیاں بینک لون کے ذریعے لینے والوں کا حال اس قدر برا کر دیا ہے کہ ان کے لیے نہ جائے رفتن ہے نہ پائے ماندن۔ یہ ہزاروں نوجوان کسمپرسی کے عالم میں ایک دہشت زدہ زندگی گزار رہے ہیں نہ وہ اپنی گاڑیاں چلا سکتے ہیں نہ گھر میں بند کرکے بیٹھ سکتے ہیں کہ قسطوں کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے۔ یہ ایسی خطرناک صورتحال ہے کہ جس کا ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔
وزیر اعظم عمران خان نے بے کار نوجوانوں کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ ایک کروڑ نوجوانوں کو ملازمتیں دلائی جائیں گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ دوسرے ضروری کاموں میں ایک کروڑ ملازمتوں کی بات یا وعدہ نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ کورونا نے بے روزگار نوجوانوں کے سارے خواب چکنا چورکر دیے ہیں۔ لگتا ہے اگر یہ صورتحال یوں ہی رہی تو قرض لینے والے سیکڑوں نوجوان بینکوں کے قرض میں ڈوب جائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک پہلا وزیر اعظم ایسا آیا ہے جو غریبوں کی داد رسی کر رہا ہے لیکن ضرورت مندوں کی تعداد اور مسائل اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ان کا حل ہونا آسان نہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ گاڑیوں کی قسطیں ادا کرنا ممکن نہیں رہا جب کہ تعلیم یافتہ نوجوان ہزاروں کی تعداد میں قرضوں پر گاڑیاں لے کر اس بری طرح پھنس گئے ہیں کہ اس سے کس طرح نکلا جائے ان کی سمجھ سے بالاتر ہے وہ چہ کنم میں گھرے ایک عذاب ناک زندگی گزار رہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ایسے حالات میں بینکوں کو ہر ممکنہ رعایتیں دینی چاہئیں۔ ہماری حکومت ایک ایسے انسان کی حکومت ہے جسے عوام کا درد ہے اور وہ مستقل مسائل کو حل کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے ہم نے قسطوں کی گاڑیوں کا جو ذکر کیا ہے وہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا ازالہ صرف حکومت کرسکتی ہے۔
سب سے پہلے کمپنیوں کو یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ کورونا کی موجودگی تک گاڑیاں لینے والوں سے قسطیں وصول نہ کریں کیونکہ عموماً اس مہینوں پر پھیلے ہوئے عرصے میں گاڑیاں بند رہیں اور قسطیں رک گئیں۔ اس قرض کی ادائیگی کا کوئی طریقہ نہیں ہے قرض کی قسطیں ہر آنے والے مہینے میں ڈبل ہو رہی ہیں اور قسطوں پر گاڑیاں لینے والے نوجوان اس طرح اس جال میں پھنس گئے ہیں کہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ٹیکسوں کی بے اعتدالیوں اور کرایوں کی مرضی کے مطابق وصولیوں سے عام آدمی کو آن لائن گاڑیوں سے بڑی مدد اور سہولت مل رہی تھی لیکن کورونا کی وحشت ناک وبا نے اس سادہ اور آرام دہ سفر کی سہولتوں سے عوام کو محروم کردیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے حالات کورونا کے حوالے سے نارمل ہوجائیں تو قسطوں کی ادائیگی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے فی الوقت تو قسطوں کی ادائی ناممکن ہے۔ اس کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ جن لوگوں نے آن لائن گاڑیاں خریدی ہیں ان نوجوانوں کو اصل قیمت میں گاڑیاں فراہم کی جائیں تاکہ انھیں ایک مستقل روزگار مل سکے۔