سانجھے کی ہنڈیا کا جو حشر ہونا تھا وہی ہوا، جس جماعت یا اتحاد کی بنیاد سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول پر ہو وہ اتحاد بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔ اب ایک ایماندار شخص حکمران بنا ہے۔ عمران خان انتخابات جیت کر وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ملک کے آئین کے مطابق حکومت کو اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ہماری اپوزیشن نے روز اول ہی سے مورچہ لگا لیا تھا، لیکن عہدوں کے لالچ نے وقت سے بہت پہلے اپوزیشن میں ایسی پھوٹ ڈال دی کہ اب وہ ایک دوسرے کو سخت الفاظ سے نواز رہے ہیں اور خود ایک دوسرے کی اپوزیشن بن گئے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ ایک زرداری سب پر بھاری اور زرداری نے ثابت کر دیا کہ وہ سب پر بھاری ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ایک دوسرے کے کٹر سیاسی مخالف بن گئے ہیں، سوال جواب اور الزامات کا سلسلہ شدت سے جاری ہے، عوام بے چارے ہنس رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کا یہ اصول ہے کہ سیاست اور حکومت کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ہوتا ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اگر میں حکومت میں آجاؤں تو ساری جماعتیں اکٹھے ہو کر میری مخالفت کریں گی۔
ان کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی، لیکن سچ یہ ہے کہ جب محض اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کے لیے کوئی اتحاد قائم ہوتا ہے تو اس کا حال شاخ نازک پر آشیانہ بنانے جیسا ہوتا ہے۔ بات اتنی بڑی نہ تھی پی پی پی نے اپنے ایک ساتھی اور روایتی سیاستدان یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنا دیا، یہ کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا بلکہ اپوزیشن کا عہدہ تھا اور اس عہدے پر فائز شخص کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ جہاں حکومت غلط راستہ اختیار کرے۔
اس کی مخالفت کرے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدوں کی اتنی شدید خواہش تھی کہ انھوں نے مسلم لیگ ن کی اجازت کے بغیر لیڈر آف اپوزیشن کا عہدہ ہتھیا لیا۔ گیلانی کا بحیثیت اپوزیشن لیڈر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت پر ممکنہ تنقید کرے۔ یوسف رضا گیلانی نے نہ اپنے اتحاد سے غداری کی نہ اپنی پارٹی سے، اس حقیقت کے باوجود مسلم لیگ نے اپنی تنقید کا رخ ان کی طرف کر دیا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پی پی پی نے مسلم لیگ ن سے اجازت کے بغیر یہ قدم اٹھایا تھا۔ بلکہ مریم نواز نے اس حوالے سے یہ فرمایا کہ بلاول اگر نواز شریف سے اجازت لے لیتے تو بات ختم ہو چکی ہوتی۔
مسئلہ یہ ہے کہ گیلانی نے قائد حزب اختلاف کا عہدہ قبول کرکے اتحاد کا جنازہ نکال دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس اتحاد اور عہدے کے جھگڑے میں بے چارے عوام کہاں کھڑے ہیں اور ان کے مسائل کی طرف کس کی نظر جا رہی ہے۔ ملک میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، گیلانی پہلا بیان یہ دیتے کہ اگر مہنگائی کم نہ ہوئی تو ہم سڑکوں پر آجائیں گے۔ بحیثیت لیڈر آف اپوزیشن ان کا فرض بھی بنتا اور عوام کو بھی تھوڑی سی تسکین ملتی لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ وہ اس جاری نظام کا ہی حصہ ہیں۔
ہمارے ملک میں اپوزیشن کے اتحاد خصوصاً ن لیگ اور جے یو آئی کا اصل مقصد حکومت کو ہر حال میں گرانا ہے اور یہ بات بار بار اپوزیشن دہرا بھی رہی ہے حالانکہ حکومت کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہمارے ہر سیاسی جماعت کا کہنا ہے کہ جمہوریت وہ ہے جس کی سربراہی وہ کرتی ہو۔ ہم اکیسویں صدی میں زندہ ہیں اور کورونا کے خطرناک دور سے گزر رہے ہیں جس کی بھینٹ اب تک لاکھوں لوگ چڑھ چکے ہیں، ہر شخص سہما ہوا ہے، عام آدمی اس بیماری یا وباء سے سخت خوفزدہ ہے، اس کی ویکسین فی شخص 8 ہزار میں لگائی جا رہی ہے جو غریب آدمی کے بس سے باہر ہے، ایسے موقع پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ویکسین عام شہریوں کو مفت مہیا کرتے لیکن یہاں تو اختیارات اور عہدوں کی لڑائی جاری ہے۔