Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pur Aman Faal Taluqat

Pur Aman Faal Taluqat

امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال اوطیبہ نے تصدیق کی ہے کہ خلیجی ریاست پاکستان اور بھارت کے مابین پرامن فعال تعلقات کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔ سفیر موصوف نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ساتھ ورچوئل بات چیت میں کہا کہ متحدہ عرب امارات نے کشمیر پر پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی کوششوں سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال اور دیگر امور میں مثبت پیش رفت ہوگی۔ موصوف نے مزید کہا کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت شاید بہترین دوست تو نہ بن سکیں لیکن ہم کم سے کم تعلقات ایسی سطح پر پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ جہاں دونوں ملک فعال ہوں اور ایک دوسرے سے بات کرسکیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 2019 سے تعلقات انتہائی خراب ہیں، پلوامہ حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ اس کے بعد غیر قانونی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت بھی ختم کردی تھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی بند ہے۔ اماراتی سفیر نے مزید کہا کہ پاکستان کو افغان امن عمل میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں سے امریکا یکم مئی سے اپنے فوجیوں کا انخلا چاہتا ہے انھوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اچانک امریکی انخلا افغانستان میں منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

سفیر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ تینوں فریق امریکا طالبان اور افغان حکومت کسی ایسے معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں جس کے ساتھ وہ جڑے رہ سکیں۔ پاکستان کی مدد کے بغیر ہمارے لیے افغانستان میں استحکام کا راستہ تلاش کرنا مشکل ہے دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس افسروں نے کشمیر کے مسئلے پر جنوری میں دبئی میں ملاقات کی تھی۔

بھارت اور پاکستان عرصہ دراز سے پڑوسی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں اور متحدہ ہندوستان میں دونوں قوموں کا ایک طویل متحدہ ماضی ہے جغرافیائی حوالے سے بھی دونوں ایک دوسرے کے فرسٹ نیبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو اس وقت پاکستان فوجی حوالے سے کمزور ملک تھا اور اس کے مقابلے میں بھارت ایک طاقتور ملک تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد پاکستان نے قبائلیوں کی مدد سے کشمیر کے ایک حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا یہ علاقہ آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ بنا لیا جس کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہ تھا۔ اور اب بھارت کشمیر کے حوالے سے زیادہ طاقتور پوزیشن میں ہے۔

دوستی اور دشمنی کی کچھ معقول وجوہات ہوتی ہیں لیکن جہاں طاقت ہی فیصلہ کن بنیاد ہو وہاں حق، اصول اور قانون سب مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ کشمیر میں یہی صورتحال ہے کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور تقسیم کے طے کردہ اصولوں کے حوالے سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے، لیکن جب سیاست اصول قانون سے ماورا صرف طاقت کی بنیاد پر ہوتی ہو تو پھر اصول قانون وغیرہ روند دیے جاتے ہیں۔ کشمیر میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے جس کا نتیجہ جنگوں کی شکل میں بھی نکلا اور عشروں سے لائن آف کنٹرول پر خون خرابے کی شکل میں جاری ہے دنیا میں جب تک باہمی اخلاق اور سچائی کی سیاست کو فروغ حاصل نہیں ہوتا وہی سب ہوتا رہے گا جو کشمیر اور فلسطین میں ہوتا آ رہا ہے۔

دنیا میں جب سے طاقت کا اصول مان لیا گیا ہے انصاف اور اصول کی سیاست عضو معطل بنی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر ملکوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کا دوسری عالمی جنگ کے دوران قیام عمل میں آیا یہ ایک فطری بات تھی کہ چھوٹے اور کمزور ملکوں کو یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب ان کے ساتھ انصاف ہوگا لیکن جب اقوام متحدہ نے اصولوں کو چھوڑ کر مصلحتوں کا راستہ اختیار کرلیا تو چھوٹے اور کمزور ملک لاوارث ہوگئے اور انصاف کی جگہ طاقت نے لے لی۔

مثال کے طور پر کشمیر اور فلسطین کو لے لیں یہ دونوں ملک بھی اقوام متحدہ کے مارے ہوئے ہیں اور ان ملکوں کے عوام یا تو غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں یا ساری دنیا میں دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں اقوام متحدہ موجود ہے لیکن بڑے اور طاقتور ملکوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔

کشمیر کے تنازع کو اب 70 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے یہ ایک سیدھا سادہ حق خود ارادی کا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمے داری تھی کہ وہ خود اپنی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حق خود ارادی کے مطابق حل کرتی لیکن بھارت چونکہ ایک بڑا اور بااثر ملک ہے لہٰذا وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روند رہا ہے بلکہ کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے جب تک بڑے اور طاقتور ملک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنے پاؤں روندتے رہیں گے اور مقبوضہ علاقوں کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھیں گے دنیا کے چھوٹے اور مظلوم ملک اقوام متحدہ میں یوں ہی خوار ہوتے رہیں گے۔

دنیا تنازعات سے بھری ہوئی ہے ان تنازعات میں کشمیر کا تنازعہ بلاشبہ سرفہرست ہے۔ متحدہ عرب امارات اور کئی اسلا می ممالک کے حکمران کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کی کوششوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، متحدہ عرب امارات کے سفیر کا حالیہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اگر مسلم ملک کشمیر کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی طرح دلچسپی لیں تو بھارت کے لیے فرار کا راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے خود متحدہ عرب امارات کے سفیر مسلم عرب ملکوں سے رابطے کرتے انھیں بھی کشمیر کے مسئلے کے حل میں کی گئی کوششوں میں شامل کریں اور پاکستانی سفیر بھی ان کوششوں میں مسلم عرب ملکوں کو شامل کرنے کی ازسر نو کوششیں کریں تو کیا یہ کوششیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکتیں؟

بھارت اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں اگر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ملک تجارت میں پیش قدمی کریں تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے سربراہ دنیا کے ملکوں سے تعلقات بنانے اور بڑھانے میں ماہر ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے دنیا کے ملکوں خصوصاً مسلم ملکوں سے رجوع کریں تو اس کے بڑے مثبت اثرات سامنے آسکتے ہیں۔