ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن، پی ڈی ایم کو ہر حالت میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں، انھوں نے جب پی ڈی ایم بنائی تھی اس وقت اس کے گیارہ ممبر تھے، عوامی نیشنل پارٹی نے بسم اللہ کی۔ پھر پیپلزپارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے عہدوں سے استعفی دے دیے، 11 کے بجائے پی ڈی ایم میں نو جماعتیں رہ گئیں، مولانا کی اس جادوگری سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایسے سیاستدان جب تک سر جوڑکر نہ بیٹھیں گے جو صدق دل سے نمائشیوں کے بجائے ایسے دو تین اہل سیاست ہی بلالیں جو اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں صرف نمائشی میچ کھیلنا ان کا مقصد نہ ہو۔ صرف دو زعما ایسے لائے جائیں جو اس ملک کی سیاست کے بوسیدہ ڈھانچے کو توڑ دیں، جو صرف عمران خان کا نام جپنے والے نہ ہوں، انھیں عوام کا نام جپنا آتا ہو۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جتنی سیاسی جماعتیں اتحاد میں شامل ہیں، ان سب کا ایک ہی بول ہے حکومت کو گراؤ، بھئی! آپ کا ارشاد بجا لیکن دیواریں گرانے میں اور حکومتیں گرانے میں فرق ہوتا ہے جسے ہمارے محترم سیاسی قائدین سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دیوار گرانے میں ایک مستری کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت گرانے میں ایم این ایز کی ضرورت پڑتی ہے، کیا پی ڈی ایم کے پاس مطلوبہ ایم این ایز ہیں؟
حکومت بنانا، حکومت چلانا ایک سیاسی آرٹ ہے۔ ایرے غیرے نہ حکومت بنا سکتے ہیں نہ حکومت چلا سکتے ہیں نہ حکومت گرا سکتے ہیں۔ اس بے کار ورزش کے بجائے عوام سے رابطہ کریں۔ اس ملک میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں، ہزار دو ہزار حاضرین کے احتجاج سے نہ حکومتیں بنتی ہیں نہ بگڑتی ہیں۔ کتنے مہینوں سے یہ تحریک چل رہی ہے لیکن عوام نے اس میں شرکت نہیں کی۔ جو جمہوری حکومتیں بناتے ہیں، ان میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں، ان سے زیادہ یعنی دیہی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ کسان ہیں، کیا کوئی لیڈر یا مہا لیڈر یا غریب عوام کے پاس کوئی گیا؟
ایئرکنڈیشن محلوں میں بیٹھ کر خالی خولی حکومتیں گرانے کی بات کرنے سے حکومتیں نہیں گرا کرتیں۔ بے چارے عوام حیران ہیں کہ یہ کیسی اپوزیشن ہے جس کے پاس حکومت گرانے کے لیے عوام نہیں، مستری ہیں اور جمہوریت کی تاریخ میں مستری نہ حکومت بنا سکتے ہیں نہ گرا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کا یہ ایجنڈا تھا جو پٹ گیا، اب کوئی اور نسخہ آزمایا جائے جس کے بارے میں اپوزیشن کو یقین ہو کہ یہ عوام حکومت بنانے اور حکومت چلانے اور وقت ضرورت حکومت گرانے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔
ہم نے اپنے کالم کی ابتدا مولانا فضل الرحمن کی پی ڈی ایم سے کی تھی، بدقسمتی سے پی ڈی ایم کی پی سب سے پہلے گیارہ جماعتی اتحاد کو توڑنے کا سبب بنی۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی نظریں وزارت عظمیٰ پر لگی ہوئی ہیں۔ وزارت عظمیٰ جمہوری نظام میں صرف منتخب ہوتی ہے اور ایک ہی ہوتی ہے، مولانا صاحب میں بڑی خوبیاں ہیں وہ جس سیاسی لیڈر کے فرزند ہیں وہ سیاسی لیڈر بڑا محترم تھا۔ اس محترم سیاسی لیڈر کے فرزند ابن الوقت سیاسی جماعتوں کے جال میں پھنس گئے ہیں؟ ان سے مولانا کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال میں اپوزیشن اتحاد کو سنبھالنے کے بجائے صرف اپنی جماعت کو سنبھالیں تو بڑی بات ہوگی۔