نیب ایک تفتیشی ادارہ ہے اور کر پشن کے خلاف تحقیق کر رہا ہے۔ نیب کی اس تفتیش سے ایلیٹ خصوصاً سیاستدان سخت کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔
پاکستان میں ایلیٹ کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر کبھی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس ملک کے عوام دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اور ایلیٹ کے گھروں میں چراغاں کا سماں تھا جو اب کہرام میں بدل گیا ہے۔ ایلیٹ چاروں طرف سے ایسے گھر گئی ہے کہ اسے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس گھیراؤ سے کیسے نکلا جائے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لوٹ مار ان پیسوں پرکی جاتی ہے جو غریب آدمی نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے جمع کیے ہیں، یہ کیسا انیائے ہے، کیسا نظام ہے کہ جس میں دکھ سہیں بی فاختہ انڈے کھائیں کوے والا معاملہ ہے۔ اصل میں بے چارے عوام ایلیٹ کی اس چالاکی سے کی جانے والی لوٹ مار سے ہمیشہ بے خبر رہے جو مل گیا خدا کا شکر ادا کرکے کھالیا۔
ایلیٹ کے قبضے میں جو اربوں روپوں کا سرمایہ ہے، اس کے مالک یہ غریب عوام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چند افراد کے خلاف کیس بنانے سے وہ اربوں روپے واپس آ سکتے ہیں جو ایلیٹ نے لوٹے ہیں؟ وہ عوام جو آج دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں، وہ لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے سے دو وقت کی روٹی کما سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کی بنیادی ضرورتیں کسی نہ کسی طرح پوری ہو جاتی ہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں عوام کی محتاجی کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔ کیا عوام اسی طرح ہمیشہ روٹی سے محروم رہیں گے؟
ایلیٹ کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر یہ لوٹی ہوئی دولت برآمد کرلی جائے تو عوام دو وقت کی روٹی کھا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ ایلیٹ سے لوٹی ہوئی دولت کس طرح برآمد کی جائے؟ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ ایلیٹ کے اثاثوں کی تحقیق کی جائے اور تحقیقات ایسے آزاد اداروں سے کرائی جائے جو کسی دباؤ میں نہیں آسکتے ہوں۔
ہمارے نظام میں ایلیٹ نے بڑی مہارت اور منصوبہ بندی سے ملک کے ہر ادارے میں ایسے لوگوں کو بٹھا رکھا ہے جو نہ صرف کرپشن میں ایلیٹ کے مددگار ہوتے ہیں بلکہ ایلیٹ کے خلاف تحقیق میں بھی کام آتے ہیں۔ اگر یہ افراد موجود رہیں گے تو تحقیقات بے مقصد ہو جائیں گی، ان پر نظر رکھی جائے اور ان افراد کو راستے سے ہٹایا جائے ورنہ تحقیق کا وہی حال ہوگا جو اب تک ہوتا آ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن ایک اہم قومی مسئلہ ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کی غربت سے ہے۔
اس حوالے سے اس تحقیقات کا حشر ہمارے سامنے ہے جو اب تک کی جاتی رہی ہے۔ پچاس قانونی اور غیر قانونی رکاوٹیں ہمیشہ آڑے آتی ہیں۔ اصل میں ہمارے تحقیقاتی ادارے ہی عموماً ناقابل اعتبار ہیں، لے دے کر نیب ہی ایک ایسا ادارہ ہے جو نسبتاً آزادی کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ نیب کی اس آزادانہ تحقیق کے خلاف سابقہ حکومتیں اس قدر واویلا کر رہی ہیں کہ میڈیا اس واویلے سے بھرا رہتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات کو اتنا طویل کر دیا جاتا ہے کہ تحقیق کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، بلکہ قانونی ضابطہ کار ہی اتنا طویل ہوتا ہے کہ ملزمان دوران تحقیق دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں، اگر مجرموں کو سزا دینا ہو تو تحقیق کے اس طویل ترین طریقہ کار کو بدل کر اس کی ایک مدت طے کر دینی چاہیے، تاکہ تاخیر سے ملزمان فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
پاکستان کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ غریب طبقات پر مشتمل ہے جنھیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ ایسے پسماندہ ملکوں میں اگر ایلیٹ ملک کی 80 فیصد دولت پر قبضہ جمائے بیٹھ جاتی ہے تو غریب آدمی کی گزر بسر کا کیا حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر عشروں تک قابض رہنے والی ایلیٹ اس دوران اتنی لوٹ مار کر لیتی ہے کہ اس کی آنے والی کئی نسلیں اس سے مستفید ہوتی رہتی ہیں۔ اس عیارانہ طریقہ کو ختم ہونا چاہیے اور تحقیقات اور عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کی ایسی مدت کا تعین ہونا چاہیے کہ مجرموں کو سزاؤں سے بچنے کا موقعہ نہ ملے۔