رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی اشیائے صرف کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کردیا جاتا ہے کہ غریب آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
چینی رمضان میں زیادہ استعمال ہوتی ہے بلکہ چینی اشیائے خورو نوش میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آئٹم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رمضان میں مقامی تاجر چینی کے دام کم کرتے لیکن ہمارے تاجر طبقے کے بعض ارکان نے چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 60، 70 شوگر ملوں نے 120 ارب روپے کا عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا۔ اس لوٹ مار سے عوام کو بچانے کے لیے حکومت نے ایکشن لیا اور قیمتوں میں کچھ کمی آئی اب بھی تاجر طبقہ چینی کے دام کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چینی کے علاوہ درجنوں اشیائے صرف کی قیمتوں حتیٰ کہ سبزی، گوشت کی قیمتوں کو بھی عوام کی پہنچ سے دور کردیا گیا۔
میں کالم لکھ رہا ہوں اور ٹی وی پر اشیائے صرف کی آگ لگی ہوئی قیمتیں بتائی جا رہی تھیں، ہم مسلمان ہیں ہمارے ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے۔ بھارت غیرمسلم ملک ہے جہاں بڑی تعداد میں مسلمان بھی رہتے ہیں ان مسلمانوں کا خیال کرتے ہوئے بھارت کے تاجر طبقے نے اشیائے صرف کے دام کم کردیے اور یہ ہر سال ہی ہوتا ہے یہ درست ہے کہ کچھ تاجر رمضان کا فائدہ نہیں اٹھاتے لیکن اکثریت اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھا کر بے شرمی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس مہنگائی میں اس سیاسی اشرافیہ کا بھی ہاتھ ہے جو حکومت کو گرانا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے۔
پاکستان کے عوام لگ بھگ دو سالوں سے بے شمار مشکلات کا شکار ہیں جن میں مہنگائی سرفہرست ہے اور یہ مہنگائی آئی ہوئی نہیں بلکہ لائی ہوئی ہے اور انتقاماً لائی ہوئی ہے چاہے حکومتی اشرافیہ ہو یا اپوزیشنی اشرافیہ سب عیش کر رہے ہیں اور غریب طبقات مزدور کسان وغیرہ روٹی کو ترس رہے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں وہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے دعائیں مانگتے ہیں لیکن ان کی دعائیں آسمان سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 140 ارب یعنی ڈیڑھ کھرب کے لگ بھگ ان ظالم بھیڑیوں نے عوام سے چھین لیے جس کا کوئی پرسان حال نہیں، ہمارے دانشور فکر مند ہیں کہ حکومت جمہوری نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت کسی کی حمایت یافتہ ہو، ہو وہی رہا ہے جو اشرافیہ چاہ رہی ہے۔ اب عام آدمی سے اگر یہ کہیں گے کہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے تو عام آدمی کہے گا بات حمایت کی نہ رہی اب تو سیدھا سیدھا اسٹیبلشمنٹ کو آگے آنا چاہیے۔
یہ اشرافیائی نام جمہوریت کا لیتے ہیں اور ان کی لوٹ مار کا عالم یہ ہوتا ہے کہ جب لوٹی ہوئی رقوم رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تویہ اشرافیہ غریبوں، مزدوروں کے اکاؤنٹس میں لاکھوں روپے جمع کرا دیتی ہے کہ مال مفت دل بے رحم والی بات ہے۔ بات یہ ہے اور اگر سچ ہے کہ قومی دولت کے مالک عوام ہیں تو کیا عوام کو اپنی دولت لٹیروں سے چھیننے کا حق حاصل نہیں؟
جو اشرافیہ صرف غریبوں کو لوٹ کر ارب پتی بنتی ہے اسے غریب طبقات کا کیا خیال ہو سکتا ہے۔ ہم جس نظام سرمایہ داری میں رہ رہے ہیں اسے طبقاتی نظام کہا جاتا ہے یعنی پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کا تعلق نچلے طبقے سے ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جس کی محنت کی کمائی سے اشرافیہ ارب پتی بنتی ہے ان محنت کشوں کو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے یہ ہے وہ طبقاتی نظام جس کے بغیر دنیا کا گزارا ممکن نہیں۔ غریب محنت کش جو بارش، دھوپ اور سردی میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر قومی دولت پیدا کرتا ہے۔
اس کے ساتھ کیسا انصاف ہوتا ہے اس کا نظارہ کرنا ہو تو نیو کراچی جائیں، لانڈھی جائیں، کورنگی جائیں، ایسی سیکڑوں آبادیاں ہیں جہاں بھوک پلتی ہے، غربت جلتی ہے اس کے مقابلے میں پوش علاقوں میں جائیں جہاں کی زندگی جہاں کے شب و روز آپ کو بالکل مختلف نظر آئیں گے۔ میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا آپ جانتے ہیں کہ جنت اور جہنم میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے، یہی فرق اس طبقاتی نظام میں نظر آتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تفریق خدا کی مرضی سے ہوئی ہے؟ قسمت، تقدیر کے دھوکوں سے جب تک عوام باہر نہیں نکلیں گے لانڈھی، کورنگی، کلفٹن کی تقسیم جاری رہے گی۔