اخبارات کے مطالعے سے قومی و عالمی صورتحال کا ادراک ہوتا رہتا ہے، اخبارات میرے سامنے ہیں، جو خبریں پڑھ رہا ہوں، وہ قابل توجہ اور قابل غور ہیں۔ ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں تحریک انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت پر نوٹس جاری کر دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم کسی گروپ کے نہیں پورے پاکستان کے وزیراعظم ہوتے ہیں، انہوں نے پورے ملک سے ووٹ لیا، سیاسی پارٹی کی تقریب کیلئے سرکاری عمارت کنونشن سنٹر کا استعمال کیسے ہوا۔ بادی النظر میں معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور کنونشن سنٹر کی انتظامیہ کو نوٹس جاری کر دیا اور بینچ کی تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا گیا۔
ایک اور اہم خبر کے مطابق موٹر وے زیادتی کیس انتہائی مطلوب ملزم عابد ملہی بالآخر گرفتار ہو گیا، ملزم مختلف جگہوں پر چکمہ دے کر فرار ہوتا رہا، بیوی کو فون اور نمبر دے کر جال بچھایا، تاندلیاں والا سے باپ کے گھر مانگا منڈی پہنچا تو دھر لیا گیا۔ لیکن تین دن پہلے ملتان کے ایک قومی اخبار نے مین لیڈ کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ملزم عابد ملہی کو ڈی جی خان سے گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری ڈی جی خان سے ہوئی یا تاندلیاں والا سے؟ اس بارے آئی جی پولیس کو وضاحت دینی چاہئے کہ یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے اور پہلے ہی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا بیان بہت متنازعہ بنا، نہ جانے ان کو بات کرنی چاہئے تھی یا نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن اس معاملے پر وضاحت ضروری آنی چاہئے۔ المناک واقعے کی تفصیل کے مطابق 9 ستمبر کی رات لاہور کے علاقے گجر پورہ میں سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی جس کے بعد پورے ملک میں خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔
حکومت نے اپوزیشن کو ملک بھر میں جلسوں کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا، وزیراعظم کی صدارت میں سیاسی امور پر حکومتی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں حکومتی ارکان نے تجویز دی کہ اپوزیشن کو جلسے کی اجازت دی جائے، تاہم کورونا ایس او پیز کا پابند بنایا جائے جس پر عملدرآمد ضلعی انتظامیہ کرائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پر امن احتجاج اور جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومت کا یہ اقدام جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے، ملک میں الیکشن کا ماحول بھی شروع ہونے والا ہے، بلدیاتی الیکشن حکومت مسلسل زیر التوا کرتی آ رہی ہے، یہ بات بذات خود ایک المیے سے کم نہیں کہ بلدیاتی الیکشن آمریت کے دور میں تو کرا دیئے جاتے ہیں مگر جب جمہوریت ہوتی ہے تو بنیادی جمہوریت کی علامت بلدیاتی الیکشن سے روگردانی کی جاتی ہے۔ حال ہی میں سندھ نے صاف کہا ہے کہ ہم بلدیاتی الیکشن کرانے کے قابل نہیں۔ پنجاب کے بارے میں بھی معلوم ہوا ہے کہ پنجاب بھی لیت و لعل سے کام لے رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ حلقہ بندیوں کا کام ابھی باقی ہے۔ حالانکہ بلدیاتی الیکشن میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے اور نت نئے تجربات نے بھی بنیادی ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔
ہزار اختلاف کے باوجود یہ بات ماننی پڑے گی کہ پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام بہتر تھا، اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوئے تھے اور دیہی علاقوں میں بھی بلدیات کے حوالے سے ترقیاتی کام ہوئے تھے۔ جب میاں شہباز شریف آئے تو ان کی طرف سے مسلط کیا گیا بلدیاتی نظام نہایت ہی ناقص تھا، انہوں نے ایک بار پھر تمام وسائل کا رخ صوبائی دارالحکومت لاہور کی طرف موڑ دیا اور تمام مسائل پسماندہ علاقوں کی طرف دھکیل دیئے۔ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی نظام بارے کہا گیا کہ وہ بہتر تھا مگر جب ہم نے اپنے وسیب ڈی آئی خان اور ٹانک میں جا کر دیکھا تو وہ سابقہ بلدیاتی نظام کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا۔ بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ ابھی چند برس بعدہی قو می الیکشنز سر پر ہونگے اور جماعتیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے میدان میں ہونگی، اس لئے ضروری ہے کہ بلدیاتی الیکشن بلا تاخیر ہونے چاہئیں۔
نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ عام سیاستدان آنے والے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ قومی رہنما آنے والی نسل کے بارے میں۔ اس قول کے بر عکس جب ہم اپنے سیاستدانوں کے اطوار کو دیکھتے ہیں تو بہت ہی شرمندگی ہوتی ہے، نہایت افسوس کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ موجودہ اقتدار پرست سیاستدانوں کی تاریخ تضادات سے بھری ہوئی ہے، وسیب کے کروڑوں انسانوں سے عرصہ دراز سے غیر منصفانہ امتیازی سلوک ہو رہا ہے، انگریزوں کے مراعات یافتہ جاگیردار گھرانے تو اپنی جگہ رہے، وسیب سے اسمبلیوں میں جانے والے " سفید پوش " بھی وفا نہیں کر رہے، یہ سیاستدان اپنی ضرورت کے وقت صوبے کا نام لیتے ہیں اور غرض پوری ہو جائے تو لسانیت اور تعصب کا نام دیکر مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ میاں نواز شریف نے سب سے پہلے "جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ" کا نعرہ لگایا تھا۔ اسی نعرے کی بنیاد پر انہوں نے الیکشن جیتا۔
ن لیگ کی طرف سے گزشتہ روز 12 اکتوبر یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا، یہ دن پرویز مشرف کی طرف سے میاں نواز شریف کا تختہ الٹنے کی یاد میں منایا جاتا ہے، حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا جب تختہ الٹا گیا تو انہی لوگوں کی طرف سے مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں، یوم سیاہ کے موقع پر ملتان میں بھی ن لیگ کی ریلی اور جلسہ ہوا، حکومت نے ایک غلط کام یہ کیا کہ جلسہ سے پہلے پولیس مخدوم جاوید ہاشمی اور دیگر کے گھر پر بھیج دی، سوشل میڈیا پر مخدوم جاوید ہاشمی اور پولیس کی تلخ کلامی دکھائی گئی، اس موقع پر یہ بھی دکھایا گیا کہ مخدوم جاوید ہاشمی سخت غصے میں تھانیدار کو سیدھی سنا رہے تھے۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ جب پولیس وسیب کے حقوق مانگنے والوں کے خلاف زیادتی کرتی ہے تو نہ صرف مخدوم جاوید ہاشمی بلکہ خطے کے تمام مخدوم، وڈیرے اور جاگیردار ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے ان کے منہ میں زبان ہی نہیں۔