ملک کے عظیم آرٹسٹ ضمیر ہاشمی کے فن کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں مگر تھوڑی سی بات کرنٹ پولیٹکل ایشو اے پی سی کے بارے میں بھی ہو جائے کہ اے پی سی کے سلسلے میں بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف متحرک نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اے پی سی میں بلاول بھٹو کی دعوت پر11 جماعتیں شریک ہونگی۔ دوسری طرف وفاقی وزیر شبلی فراز اور شہزاد اکبر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اے پی سی کو ملزموں کا اکٹھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اے پی سی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات کا ایجنڈا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ آل پارٹیز کانفرنس نہیں ہے کہ اس میں قوم پرست جماعتوں کو نہیں بلایا گیا۔ اگر اس ملک میں کسی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تو وہ قوم پرست جماعتیں ہیں۔ مزید یہ کہ ان کا ایجنڈا کرسی اقتدار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اے پی سی کا مطالبہ موجودہ حکمرانوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ اس وقت ضرورت وفاق کے توازن کی ہے اور یہ توازن وسیب کے علاقوں پر مشتمل صوبے کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ جس کے لئے سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس ہو چکا ہے۔ اسے اے پی سی کے ایجنڈے میں ہر صورت شامل ہونا چاہئے۔
اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں گا۔ لکیریں بات کرتی ہیں اور تصویریں بولتی ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ بات بالکل درست ہے کہ آرٹسٹ ایسے کر سکتا ہے۔ آرٹ بذاتِ خود زندگی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ جس آرٹسٹ کو فن دے وہ بے جان لفظوں اوربے جان لکیروں کو بھی بلوا سکتا ہے اور بے جان تصوریوں کو بھی فن کی زندگی دے سکتا ہے۔ ملتان، سرائیکی وسیب بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سارے پاکستان اور سارے جہان کا فخر ضمیر ہاشمی ایک ایسے ہی آرٹسٹ ہیں۔ ضمیر ہاشمی پنسل ورک کے ذریعے تصاویر بناتے ہیں تو وہ زندہ ہو جاتی ہیں۔ ضمیر ہاشمی نے پہلی تصویر 1979ء میں کراچی کے قومی جرائد میں شائع ہوئی تو ان کا پہلا تعارف ہی ان کی بہت بڑی پہچان بن گیا اور کراچی کے علمی ادبی اور ثقافتی حلقے ان کے فن کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس کے بعد ان کی تصویریں قومی جرائد میں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔
میں نے ضمیر ہاشمی سے پوچھا کہ آپ نے فن کہاں سے سیکھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ فن میری روح میں شامل ہے۔ میں خودبخود پنسل چلانا شروع کی تو پنسل چلتی گئی اور تصویریں خوبصورت ہوتی گئیں۔ البتہ میں اپنا روحانی استاد انعام راجہ کو سمجھتا ہوں کہ میں ان کے فن سے متاثر ہو کر یہ کام شروع کیا۔ ضمیر ہاشمی نے اپنے فنی سفر کا آغاز کراچی سے کیا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ وہ کراچی کب گئے۔ اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ چھوٹی عمر میں کراچی آ گئے اور وہاں اپنے چچا کے پاس رہتے تھے، پڑھائی کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1974ء میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، جیکب لائن کے اشرف نامی ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ پنسل کے ساتھ تصویر بنا رہا تھا، تصویر بہت خوبصورت تھی۔ ضمیر ہاشمی بتاتے ہیں کہ اس تصویر کو دیکھتے دیکھتے میں رک سا گیا، اور پھر میرے اندر کا آرٹسٹ جاگا، پھر میں نے گھر آ کر تصویریں بنانا شروع کر دیں۔ پھر آہستہ آہستہ میرے فن میں نکھار آتا گیا۔ آج ضمیر ہاشمی کا شمار ملک کے بڑے آرٹسٹوں میں ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں انسان پیدا ہوتا ہے، وہاں کی مٹی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی طرح ضمیر ہاشمی بھی ملتان آ گئے، محکمہ آثار قدیمہ میں ملازمت ہوئی، لیکن ملتان میں کراچی والا ماحول اور کام تو نہ تھا البتہ جیسے عشق اور مشک چھپ نہیں سکتی اس طرح فن کا اظہار بھی کہیں نہ کہیں شکل میں ہوتا رہتا ہے۔ میں خواجہ غلام فرید کی ایک خوبصورت تصویر دیکھی تو نیچے ضمیر ہاشمی کا نام لکھا ہوا تھا۔ میرے دوست رحیم طلب صاحب اس وقت ملتان ہوتے تھے، میں نے ان سے ضمیر ہاشمی کا پوچھا تو انہوں نے ہاشمی صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت بڑے آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم انسان ہیں۔ پھر بھی ان کو ملنے کی چاہت رہ گئی۔ 1994ء میں ہم نے ملتان سے جھوک شروع کیا تو اس دوران ضمیر ہاشمی سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے سرائیکی اخبار شروع ہونے پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور میری درخواست سے پہلے خود کہہ دیا کہ میں روزانہ جھوک کو ٹائم دوں گا اور اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لوں گا کیونکہ ماں بولی کی ترقی کا کام ہمارا سانجھا کام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ضمیر ہاشمی اور میں ایک دوسرے سے ایک پل کیلئے بھی جدا نہیں ہوئے۔
ضمیر ہاشمی کا پورا نام ضمیر حسین شاہ ہے اور آپ 1960ء میں مخدوم سرور شاہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک نسبت یہ بھی ہے کہ میری تاریخ پیدائش اور ان کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے۔ ضمیر ہاشمی بستی میاں پور جہان پور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق مخدوم عبدالرشید حقانیؒ آف مخدوم رشید کے ساتھ ہے۔ مخدوم رشیدبھی بہت بڑا مردم خیز خطہ ہے۔ یہاں بھی بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا نام تو سیاست میں ہے پر ان سے بڑھ کر اس علاقے میں آواز کی دنیا کے عظیم لوگ مخدوم مرید حسین ہاشمی اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس علاقے کے مخدوم اکبر ہاشمی کی سرائیکی شاعری کی خوبصورت کتاب " سجھ دا پوکھا " شائع ہوئی ہے۔ ضمیر ہاشمی کے عظیم فن کے بارے میں ایک کتاب معروف رائٹر شاکر حسین شاکر نے شائع کی۔ اس کتاب میں جو تصویریں شائع کی گئی ہیں، وہ اپنے وسیب کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں، جن میں وسیب کی تہذیبی جھلک کے ساتھ ساتھ محرومی کا عکس بھی ہے۔ ضمیر ہاشمی کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ ان جیسے فنکار روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ان کی شخصیت اور ان کے فن پر جتنا فخر کریں کم ہے۔