راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لاہور جتنا پھیل گیا ہے، اب یہ اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ نیا شہر بسایا جائے۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ راوی کنارے نیا شہر بسانے کا منصوبہ بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اس پر تخمینے کی لاگت 50 ہزار ارب روپے لگائی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ شہر نیا لاہور ہوگا جسے منصوبہ بندی کے تحت بسایا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ شہر پھیل چکا ہے تو یہ کونسی سمجھداری ہے کہ اسے مزید پھیلا دیا جائے۔ مسلمہ اصول یہ ہے کہ زیادہ بوجھ کے باعث کشتی ڈوبنے پے آئے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں نہ کہ یہ کہ مزید بوجھ لاد دیا جائے۔ سرکار دو عالمؐ کا فرمان موجود ہے کہ شہروں کو پھیلنے سے روکا جائے۔ عالمی ماہرین کا اس سے اتفاق ہے اور ساتھ یہ بھی کہ عالمی ماہرین نے کسی بھی بارڈر سٹی کے پھیلاؤ کی ممانعت کی ہے، خصوصاً ان حالات میں جبکہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات درست نہ ہوں تو اس پر بھاری سرمایہ خرچ کرنا قوم پر ظلم ہے۔
عمران خان کی حکومت تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی، تبدیلی کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ پسماندہ علاقوں کو ترقی دی جائے گی، بڑے شہروں کوبڑھنے سے روکا جائے۔ عمران خان نے اپنے ہر خطاب میں اس بات کا شکوہ کیا کرتے تھے کہ صوبہ تو کیا ملک کے وسائل لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے اجتماعات میں عمران خان نے اپنے جلسوں میں راجن پور اور لاہور کی فی کس آمدنی کے اعداد و شمار پیش کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ لاہور پر راجن پور کے مقابلے میں آٹھ گنا زائد فی کس کے حساب سےسالانہ خرچ کئے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان کے اعلانات اور بر سر اقتدار آنے کے بعد اقدامات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کل کے نواز شریف کے ناقد آج انکے مقلد بن چکے ہیں۔ صوبے میں نئے شہر بسانے ہیں تو تھل، چولستان اور وسیب کے دامان میں ایک کروڑ ایکڑ سے زائد رقبہ موجود ہے۔ اس خطے میں نئے شہر اور نئی یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی ہیں مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ خانپور کیڈٹ کالج کی تعمیر دس سال سے مسلسل التوا کا شکار چلی آ رہی ہے۔ سرائیکی خطہ پس ماندہ نہیں پس افتادہ ہے، پس افتادہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز جسے دور پھینک دیا جائے۔
وسیب کے لوگ اپنی محرومیوں کے حوالے سے نوحہ کناں کیوں ہیں؟ کیا یہ محض پروپیگنڈہ ہے یا اس میں کوئی صداقت بھی ہے؟ سرائیکی وسیب کی حق تلفیوں کا موازنہ صرف ایک مثال سے کیا جا سکتاہے کہ 1981ء کی مردم شماری میں لاہور ڈویژن کی آبادی ایک کروڑ 25 لاکھ آٹھ ہزار تھی جبکہ ملتان ڈویژن کی ایک کروڑ ستائیس لاکھ باسٹھ ہزار ہے۔ لاہور سے کسی کو کوئی پُر خاش نہیں، یہ ترقی کرے کسی کو حسد کرنے کا حق نہیں البتہ محروم علاقوں کا خیال رکھا جائے۔ محرومی غصے کو جنم دیتی ہے، غصے سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اگر یہ نفرت کسی خطے کی محرومی کی پیداوار ہو تو جغرافیے بدل جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ لاہور ملتان کے مقابلے میں بہت چھوٹا شہر تھا، اسی بناء پر حضرت داتا گنج بخش نے لکھا " لہور یکے از مضافات ملتان است "۔ لاہور کو مغلیہ عہد میں ترقی ملنا شروع ہوئی، اکبر نے لاہور کو اپنی آرام گاہ بنایا، جہانگیر کے دور میں ترقی ہوئی، ان کے دور میں عالیشان مسجد وزیر خان بنی اور شاہدرہ کے قریب جہانگیر اور نور جہاں کا مقبرہ ان کی یادگار ہے۔ اورنگزیب کے زمانے میں لاہور میں بادشاہی مسجد تعمیر ہوئی تو اس میں ملتان کا بہت سا حصہ شامل تھا۔ سکھ دور میں صوبہ ملتان پر قبضے کے بعد وسیب کے وسائل لاہور پر خرچ ہوئے البتہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سکھ دور میں بھی ملتان کی صوبائی حیثیت قائم رہی۔ انگریزوں نے لاہور پر سکھوں سے حکومت چھینی تو مزاحمت نہ ہوئی، البتہ جب انگریزصوبہ ملتان پر قبضے کیلئے آئے تو سخت مزاحمت ہوئی، جنگ میں مقامی افراد کے ساتھ بہت سے انگریز بھی مارے گئے۔ اسی غصے کی بناء پر انگریز نے صوبہ ملتان کو صوبہ لاہور میں ضم کر دیا۔
رنجیت سنگھ نے کشمیر اور پشاور پر بھی قبضہ کیا تھا، انگریزوں نے بعد ازاں کشمیر اور صوبہ پشاور کو 9 نومبر 1901ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ ( صوبہ سرحد) کی شکل میں نہ صرف بحال کیا بلکہ اس میں سرائیکی علاقے دیرہ اسماعیل خان، ٹانک، میانوالی اور بنوں وغیرہ بھی شامل کر دیئے۔ تاریخی حوالے سے یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان جب مغربی پاکستان کے گورنر بنے تو انہوں نے میانوالی کو دوبارہ پنجاب میں شامل کر دیا۔ ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی، آزادی کے بعد غیور قومیں حملہ آوروں کے ناجائز اقدامات کو کالعدم قرار دیتی ہیں، مگر یہاں ایسا نہیں ہوا۔ البتہ ہمسایہ ملک بھارت نے سٹیٹ ری آرگنائزیشن ایکٹ پاس کر کے صوبوں کی نئے سرے سے تاریخی، ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے حد بندیاں کیں اور ان کا صوبہ کمیشن جو کہ 1956ء میں قائم ہوا اب تک کام کر رہا ہے، بھارت کے 9 صوبے تھے، اب 36 ہو چکے ہیں۔ عمران خان کو تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو اپنے وعدے کے مطابق سرائیکی صوبہ بنائیں اور صوبے کے دارالحکومت کے لئے وسیب میں نیا شہر بسائیں، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ پچاس ہزار ارب خرچ کریں گے تو حکومت کو نئے شہر اور نئے صوبے کے قیام سے ایک لاکھ ارب کی آمدنی ہو گی۔