وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کا مستقبل 5سال کی پلاننگ سے نہیں بنتا بلکہ ترقی کیلئے طویل مدتی منصوبہ بندی ضروری ہوتی ہے، وزیراعظم نے گیلانی پارک لاہور میں میوہ کے جنگل کے منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت میں ہر 5سال بعد الیکشن ہوتا ہے، بدقسمتی سے حکومتیں صرف 5سال کا سوچتی ہیں تاکہ وہ الیکشن جیت سکیں، وزیراعظم کی یہ بات 100فیصد درست ہے کہ قومیں آگے کا سوچتی ہیں اور آنیوالی صدیوں کی ضروریات کا لحاظ رکھ کر منصوبہ بندی کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں سب کچھ اڈہاک ازم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے 5سال کی بات بھی تکلفاً کہی جبکہ ہمارے ہاں تو ایک ایک دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ آج کا دن گزارلیں کل دیکھی جائے گی، وزیراعظم اور ان کی مشیروں کو یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ مہنگائی آسمان پر چلی گئی اور ملازمین کے مطالبات کے باوجود موجودہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کیا گیا مگر اسلام آباد میں جب احتجاج کیا اور حکومت کو بے بس کردیا تو عبوری بنیاد پر تنخواہوں میں اضافہ کردیا گیا۔ یہی دراصل ڈنگ دبائو پالیسی ہے جو گزشتہ 73سالوں سے چلی آرہی ہے۔
وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے پچھلے دنوں ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا دورہ کیا اور بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جوکہ درست قدم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان منصوبوں پر کب عمل ہوتا ہے تاہم اس دورے کے موقع پر ایک افسوسناک صورتحال یہ ہوئی کہ ڈائریکٹر تعلقات عامہ ملتان اور ڈائریکٹر تعلقات عامہ ڈیرہ غازی خان کو تبدیل کرکے لاہور بھیج دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی بہتر کوریج نہ ہونے پر ان کو تبدیل کیا گیا۔ میں لاہور گیا وزیر اعظم لاہور آئے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ اور تمام افسران وہاں مصروف تھے۔ البتہ میری ڈائریکٹر جنرل محترمہ ثمن رائے سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے ملتان آنے کی درخواست کیساتھ یہ بھی گزارش کی کہ 6 مارچ کو سرائیکی کلچر ڈے ہے۔ سندھی کلچر ڈے کی طرح سرائیکی کلچر ڈے کو بھی سرکاری سطح پر منایا جائے۔
وسیب کی ترقی کے حوالے سے پنجاب سرمایہ کاری بورڈ کا ملتان ہیلپ ڈیسک قائم ہو چکا ہے اور وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی اور پنجاب سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین سردار تنویر الیاس خان نے گزشتہ روز ملتان میں اہم اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں وسیب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان، کمشنر ملتان محمود اختر جاوید، سی ای او میڈم ارفہ اقبال، بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر منصور کنڈی، وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی ملتان آصف اقبال چودھری، ایوان صنعت و تجارت کے صدر صلاح الدین اور وسیب کی ترقی کے حوالے سے کوششیں کرنے والی پاک اٹالین بزنس میں ایسوسی ایشن کے صدر شیخ احسن رشید اور جلال الدین رومی نے اجلاس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر سردار تنویر الیاس خان نے کہا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی سے ملک مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ترقی اس وجہ سے نہ ہو سکی کہ پسماندہ علاقے نظر اندا زکئے جاتے رہے۔ سرائیکی وسیب میں بہت زیادہ وسائل ہیں یہ ملک کا زرعی حب ہے اور اس خطے میں خام مال اور افرادی قوت وافر مقدار میں موجود ہے۔ اس بناء پر یہ علاقہ ترقی کے حوالے سے بہت آگے جائے گا۔
سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین سردار تنویر الیاس خان کی کوششیں لائق تحسین ہیں کہ پنڈی سے تعلق ہونے کے باوجود وہ وسیب کی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تنویر الیاس خان نے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف علی کو نئی لائبریری بنانے کیلئے اپنی جیب سے 20 ملین (دو کروڑ روپے) کا چیک دیا اور لائبریری کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے کہا کہ گو کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے کتاب پڑھنے کا رحجان قدرے کم ہوا ہے لیکن کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ کتاب انسان کی قدیم دوست ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ زرعی یونیورسٹی ملتان کی یہ لائبریری طلباء کے ساتھ ساتھ ہر کتاب دوست کیلئے مفید ثابت ہو۔ سردار تنویر الیاس خان کی علم دوستی پر وسیب کے لوگ بہت خوش اور نازاں ہیں کہ وسیب میں سرداروں، جاگیرداروں اور تمنداروں کی کوئی کمی نہیں، یہ صاحبان صدیوں سے صاحبِ حیثیت بھی ہیں، لغاری، مزاری، قریشی، کھر، کھوسے، دریشک ہمیشہ بر سر اقتدار بھی رہے مگر آج تک کسی کو نہ صرف یہ کہ تعلیم کے فروغ کیلئے اپنی جیب سے ایک پائی خرچ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی، بلکہ ان کی طرف سے تعلیمی اداروں کی مخالفت کے قصے شہاب نامہ اور دوسری تاریخی کتابوں میں موجود ہیں۔ ان حالات میں سردار تنویر الیاس خان کا جذبہ قابلِ تقلید بھی ہے اور لائق تحسین بھی۔
وسیب کے جاگیرداروں کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ان جاگیرداروں میں ایک نام ایسا بھی ہے جس کی قربانی سر سید احمد خان سے بھی بڑھ کر ہے، اس عظیم ہستی کا نام سردار کوڑے خان جتوئی ہے، جو قصبہ جتوئی ضلع مظفر گڑھ کے سکونتی اور آل ہندوستان جتوئی قبیلہ کے سردار تھے، ان پڑھ مگر علم دوست اور سرائیکی زبان کے شاعر تھے۔ سردار کوڑے خان نے 5 اکتوبر 1894ء کو وصیت کر کے اپنی وسیع اراضی نادار و غریب طلباء کیلئے وقف کی۔ وصیت کے مطابق ضلع مظفر گڑھ اور ضلع راجن پور میں واقع 32مواضعات کی 88 ہزار 7 سو 53 کنال اراضی ڈسٹرکٹ بورڈ مظفر گڑھ کے نام منتقل ہوئی۔ سردار کوڑے خان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ 1880ء میں انہوں نے ملتان اور مظفر گڑھ کے درمیان دریائے چناب پر اپنے خرچ سے پُل تعمیر کرایا اور حکومت سے وعدہ لیا کہ اس پُل پر ٹول ٹیکس نہیں لیا جائے گا مگر آج ٹول ٹیکس بھی لیا جا رہا ہے اور سردار کوڑے خان نے جو وسیع جائیداد وسیب کے غریب طلباء کیلئے وقف کی، اس پر قبضہ گروپ قابض ہیں اور سب سے بڑا قبضہ گروپ خود گورنمنٹ پنجاب اور اس کے اہلکار ہیں۔ ہم ایک عرصے سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ مظفر گڑھ میں سردار کوڑے خان کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جائے مگر آج تک توجہ نہیں دی گئی۔ پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے طویل مدت کی منصوبہ بندی کرکے وزیر اعظم کے وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔