کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ارشاد احمد عارف اور ڈاکٹر حافظ ثناء اللہ خان کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں علاقائی اور مقامی اخبارات کیلئے مخصوص 25 فیصد اشتہاری کوٹے کے خاتمے کی اطلاعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ علاقائی، مقامی اور چھوٹے اخبارات صحافیوں کیلئے نرسری کی مانند ہیں اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ علاقائی، مقامی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے اخبارات ہزاروں صحافیوں اور میڈیا ملازمین کیلئے عملی درسگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی معاشی بندش سے ملک میں ذمہ دار اور غیر جانبدار صحافت کیلئے تربیت یافتہ انسانی وسائل کی بھی کمی ہو جائے گی۔ جناب ارشاد عارف اور جناب حافظ ثناء اللہ خان کا کہنا بالکل درست ہے کہ کوٹے کے خاتمے سے ریجنل نیوز پیپرز ختم ہو کر رہ جائیں گے کہ صرف ریجنل میڈیا ہی نہیں نیشنل میڈیا بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، مگر پاکستان میں یہ ستون قائم نہیں رہ سکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کے چوتھے ستون کو کس نے گرایا؟ اگر ہم ماضی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ کام کوئی اور نہیں بلکہ وہی کرتے آ رہے ہیں، جن کے پاس ریاست کی باگ دوڑ رہی ہے، آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے مشکل دور میں اخبار یا ٹی وی چینل چلانا کتنا مشکل ہے؟ یہ بات کوئی ان سے پوچھے جو اس مشکل اور کٹھن مرحلے سے گزررہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اچھے برے لوگ ہر شعبے میں ہوتے ہیں مگر جو لوگ اپنے وسائل اور اپنے خون و جگر سے یہ کام کر رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومتیں اپنے ریاستی وسائل سے بھی نہیں کر سکیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو سرکاری اخبارات بند نہ ہوتے اور سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو ٹیکس لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ عجب بات ہے کہ حکومت اپنے اداروں کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں جبکہ جو لوگ اپنے وسائل سے یہ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف نت نئے ضابطے سامنے آتے ہیں۔
اساتذہ بتاتے ہیں کہ میڈیا کے تین بنیادی اصول ہیں، انفارمیشن، ایجوکیشن، انٹریٹیمنٹ۔ جب ہم اپنے ملک پاکستان میں میڈیا کے کردار پر غور کرتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں تینوں اصولوں کی پامالی ہو رہی ہے، سب ایک جیسے نہیں ملک میں اچھے میڈیا ہاؤسز بھی موجود ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا الگ الگ کردار ہے، مگر مقصد ایک ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پرنٹ میڈیا کو سرائیکی کہاوت " لکھیا لوہا، الایا گٖوہا" کی بناء پر برتری حاصل ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی حدود کا دائرہ وسیع تر ہے مگر اینکرز کی محدود سوچ کے باعث نہ صرف یہ کہ پسماندہ علاقے ان کی نظروں سے اوجھل رہے بلکہ اس سے میڈیا کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے خلاف وسیب میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ بڑے شہروں میں گلی محلے میں صفائی کا مسئلہ در پیش ہو تو سارا سارا دن کیمرے کی آنکھ وہیں پر جمی رہتی ہے، اور وسیب میں قیامت ہی کیوں نہ گزر جائے تو چینلز کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔
صحافتی تاریخ کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اس کے لئے صحافی برادری نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ریاست ماں ہوتی ہے، وہ الجھے ہوئے معاملات کو بہتر بناتی ہے مگر عجب بات ہے کہ ریاست کے کارندے تمام معاملات کو خود خراب کر رہے ہیں اور لاکھوں صحافی برطرفیوں کی صورت میں جو عذاب سہہ رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ ان کے معاشی قتل کی ایف آئی آر وقت کے حکمرانوں کے خلاف درج ہو چکی ہے۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے، میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صحافی برادری کی طرف سے جو خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کا جواب اس طرح حکومت کی طرف سے نہیں دیا جاتا، صحافیوں نے آزادی صحافت کیلئے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں۔
آمرانہ مزاج ہمیشہ میڈیا کے خلاف رہا ہے، ایوب خان کی طرف سے 1964ء میں بننے والا نیشنل پریس ٹرسٹ بھی پریس کی آزادی کے خلاف ایک وار تھا، سرکاری سطح پر نیشنل پریس ٹرسٹ کی طرف سے سرکاری سطح پر ہونیوالے اخبارات اور جرائد کا حشر سب کے سامنے ہے اور اس کا بھی حکومت کو بخوبی علم ہے کہ اس پر کتنے اخراجات آتے ہیں۔ ضیاء الحق دور میں پریس پرسنسر اور صحافیوں کو کوڑوں کی سزائیں نہ بھولنے والے واقعات ہیں۔ اسی بناء پر عمران خان کو دوسروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے میڈیا سے متعلق امور اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں اور میڈیا کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط بنانے کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں، میڈیا کش پالیسیاں بند ہونی چاہئیں۔
یہ اکیسویں صدی ہے، آج سوشل میڈیا نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پی ٹی وی کو اپنا زعم تھا، بی بی سی کی اپنی سج دھج تھی، امریکا کی طرح وائس آف امریکا بھی خود کو بہت بڑی چیز سمجھتا تھا۔ آج ہر شخص کے پاس موبائل کی صورت میں اپنا پی ٹی وی، اپنا بی بی سی اور اپنا وائس آف امریکا ہے۔ آج کسی کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، چند سال پہلے کہا جاتا تھا کہ دنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے، آج دنیا اس سے بھی سمٹ کر ناخن برابر موبائل سم تک سکڑ چکی ہے۔
آج دنیا کو ایک بار پھر سے حقیقت پر مبنی خبروں، درست تعلیم اور خوش گوار تفریح کی ضرورت ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، زمانہ تبدیل ہو رہا ہے، دنیا کی بڑی طاقتوں نے بڑی گمراہی پھیلائی، امریکا دنیا کا چوہدری بنا مگر موجودہ امریکی الیکشن سے امریکی سسٹم میں دراڑ پیدا ہوئی ہے۔ خدا کرے یہ دراڑ جبر کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہو۔