Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sindh Police Ke Hathon 5 Afrad Ki Halakat

Sindh Police Ke Hathon 5 Afrad Ki Halakat

کراچی پولیس نے پانچ اشخاص جن کا تعلق سرائیکی وسیب سے تھا، قتل کر دیئے اور اسکو پولیس مقابلے کا نام دیدیا۔ ٹی وی چینلز پر جب یہ خبر چلی تو پورے وسیب میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ جمعہ کے روز ٹیلیفون کالز کا تانتا بندھ گیا، لوگ واقعے کی تفصیلات بارے جاننا چاہتے تھے، میں نے کراچی کے سینئر صحافی شاہد جتوئی اور عارف محمود سے رابطہ کیا جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ جعلی پولیس مقابلہ تھا اور پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد کا تعلق بہاولپور اور ملتان سے بتایا جاتا ہے۔ کراچی پولیس کے بیان کے مطابق ڈیفنس کے بنگلوں میں سیریل وارداتوں میں ملوث ڈکیت گینگ کے 5 ڈاکو مبینہ طور پر مقابلے میں مارے گئے، ہلاک ملزمان کے قبضے سے اسلحہ و لوٹا ہوا سامان اور ڈبل کیبن گاڑی برآمد ہوئی ہے، پولیس کے مطابق ملزم مختلف بنگلوں میں ہونے والی ڈکیتیوں سمیت 20 مقدمات میں ملوث تھے، جبکہ پی ٹی آئی رہنما لیلیٰ پروین نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا اور مارا جانیوالا اس کا ڈرائیور عباس تھا۔ پولیس کے مطابق پولیس مقابلے ہلاک ہونے والے ڈیفنس فیز 4، 5 کمرشل اسٹریٹ یثرب امام بارگاہ کے قریب واقع بنگلہ نمبر I/60میں ڈبل کیبن گاڑی میں سوار پانچ ملزمان گھس کر لوٹ مار کر رہے تھے، اطلاع ملنے پر پولیس نے بنگلے کا گھیراؤ کر لیا، ملزمان بنگلے میں لوٹ مار کے بعد اس کے عقبی بنگلے میں داخل ہوئے تو پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جوابی فائرنگ میں پانچوں ڈاکو شدید خمی ہو گئے، جنہیں طبی امداد کیلئے ہسپتال پہنچایا گیا کہ وہ دم توڑ گئے، 4ملزمان کی شناخت محمد عباس، غلام مصطفی، محمد عابد، محمد ریاض کے نام سے ہوئی جبکہ ایک لاش کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کی رہنما لیلیٰ پروین نے کہا کہ پولیس مقابلہ جعلی تھا جس میں مارے جانے والے افراد میں میرا ڈرائیور عباس بھی شامل ہے، جس بنگلے پر مقابلہ ہوا اس کے عقب میں میرا بنگلہ ہے، گھر پر ساس اور نند موجود تھیں۔ لیلیٰ پروین کا بیان اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے واقعے سے متعلق ایک دوسری ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا، البتہ پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان کا بیان اہمیت کا حامل ہے، جس میں انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کا از خود نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال قبل شارع فیصل پر بھی ایک جعلی مقابلہ ہوا تھا، متاثرہ خاندان کے گھر وزیراعظم عمران خان گئے تھے، ملیر میں ایس ایس پی راؤ انوار سمیت دیگر جعلی مقابلے بھی سب کے سامنے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کا کریمنل ریکارڈ ہے تو عدالتیں اور ججز موجود ہیں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان معاملات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

لیلیٰ پروین کا جو ویڈیو پیغام وائرل ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جو واقعہ آج ڈیفنس میں ہمارے گھر میں ہوا، اس بارے میں مزید بتانا چاہتی ہوں، جتنی بھی سی سی ٹی وی کیمراز لگے ہوئے تھے وہ پولیس لے گئے اور ریکارڈنگ ڈیلیٹ کر کے واپس دیئے۔ پولیس سی سی ٹی ویز کیوں لے گئی اور ڈیلیٹ کیوں کئے؟ ہمارے ڈرائیور کو گھر سے نکالا، گاڑی میں بٹھایا اور فائر کھول دیئے، اس ڈرائیور کو کہا کہ بھاگو، وہ بیچارہ گاڑی لے کر بھاگتا رہا، یہ فائرنگ کرتے رہے، اس کو روڈ پر لے جا کر ڈائریکٹ فائر کئے، اسے مار کے لاش اٹھائی اور جس بنگلے میں باقی چار لوگوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، وہاں جا کر پھینک دی۔ جو شخص میرے گھر میں موجود تھا، سو رہا تھا، اور گاڑی میرے گھر کے باہر کھڑی تھی، وہ گاڑی وہاں سے کیسے چلی گئی؟ یہ ریکارڈنگ کیمروں میں موجود تھی جو انہوں نے ڈیلیٹ کر دی۔ لیکن میں اس واقعے کو دم نہیں توڑنے دوں گی، انہوں نے اپنے ہیڈ کو خوش کرنے کیلئے لاشوں کا تحفہ دیا ہے۔ ان کو لگا کہ سرائیکی قوم سب سے زیادہ مظلوم ہے، ان کے پیچھے بولنے والا اور آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ میرا ڈرائیور نہیں میرا بھائی تھا، میں اس کیلئے انصاف لے کر رہوں گی۔ اس کے تین معصوم بچے چھ سال کا بیٹا، تین سال کی بیٹی اور آٹھ ماہ کا بیٹا ہے۔ میں ان کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتی، میں انصاف لے کر رہوں گی۔ وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے التجا ہے کہ ان لوگوں کو پکڑیں، انکو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

سرائیکستان صوبہ محاذ کے اجلاس میں ڈیفنس کراچی میں سندھ پولیس کی طرف سے پانچ سرائیکیوں کے قتل پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو گرفتار کر کے قانون کے حوالے کیا جائے، اجلاس میں کہا گیا ہے کہ۔ سندھ پولیس کی طرف سے مقتولین کو سرائیکی ڈاکو گینگ قرار دینا بھی مجرمانہ عمل ہے کہ اس عمل سے سندھ پولیس کے تعصب کا اظہار ہوتا ہے کہ سرائیکیوں کو شناخت کی بناء پر قتل کیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اگر مقتولین کے خلاف مقدمات بھی درج تھے تو پولیس کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ ماورائے عدالت لوگوں کو قتل کر دے؟ اگر کوئی ملزم ہے تو اس کے خلاف تفتیش کا طریقہ کار موجود ہے، ماورائے عدالت قتل نہ صرف ریاست کے آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایسے اقدام سے عدالتوں کی رٹ بھی چیلنج ہوتی ہے اور اسکا تقدس بھی پامال ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد جوکہ کراچی کی تجاوزات تک کے معاملات کا از خود نوٹس لیتے رہے ہیں، فوری طور پر اس قتل عام کا نوٹس لیں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ ہمارا پی ڈی ایم اس مسئلے پر وسیب کا ساتھ دے اور ملتان کے جلسے میں اس اہم مسئلے کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنائے۔