ہائیکورٹ ملتان کے بار روم میں گزشتہ شام سرائیکی رہنما بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی 8 ویں برسی کے موقع پر تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ صدارت چیئر پرسن ڈاکٹر نخبہ لنگاہ نے کی۔ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر سید اطہر حسن بخاری کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد اور ریٹائرڈ سیشن جج وجاہت حسین لنگاہ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور سرائیکی کارکنوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ صوبے کے مطالبے کے علاوہ جو خاص بات دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ وکلاء عدلیہ میں آبادی کے مطابق اپنے خطے کی بات کر رہے تھے۔ اس موقع پر یہ قرارداد بھی پاس ہوئی کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار اور وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سول سیکرٹریٹ کے حوالے سے الزام لگانے کی بجائے اُن عہدیداروں کا نام لیں جنہوں نے جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کو غیر فعال کرنے کی سازش کی۔ اس موقع پر وسیب کے ان جاگیر داروں کے خلاف سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا جنہوں نے ڈھونگ رچا کر صوبے کے نام پر ووٹ لے لئے اور آج وہ بھولے سے صوبے کی بات نہیں کرتے۔
مقررین نے اپنے خطاب میں کہاکہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ نے 7اپریل 1989ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی، مورخہ 7 اپریل 2013ء کو پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ تھی، رات کو وہ کافی دیر تک انتظامات کے سلسلے میں مصروف رہے، اور ساتھ ہی صوبے کے حوالے سے اقتدار پرست جماعتوں کی بے وفائی کا ذکر کرتے رہے اور تحریک کے کارکنوں کو باور کراتے رہے کہ وسیب کے حقوق کی جدوجہد ہمت اور جواں مردی کے ساتھ جاری رکھنی ہے اور جب تک الگ صوبہ نہیں بن جاتا چین سے نہیں بیٹھنا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ پاکستان سرائیکی پارٹی کی سالگرہ کے دن ان کی وفات ہوئی۔ وسیب کے دوسرے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی طرح صوبہ ان کا خواب تھا اور ان کی شدید تمنا تھی کہ صوبہ ان کی زندگی میں بنے افسوس کہ حکمرانوں نے ان کی تمنا اور ان کا خواب پورا نہیں ہونے دیا اور اسی طرح وسیب کی کئی نسلیں یہی آرزو اور تمنا دل میں لے کر اگلے جہان سدھار گئیں۔ اگر وسیب میں رہنے والے تمام لوگوں نے اپنے حقوق اور اپنے صوبے کیلئے جدوجہد نہ کی تو ہماری آئندہ نسلیں بھی استحصال کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔
برسی کے سلسلے میں لنگاہ صاحب کی صاحبزادی اور پاکستان سرائیکی پارٹی کی چیئر پرسن ڈاکٹر نخبہ لنگاہ اور مرکزی صدر ملک اللہ نواز وینس، پارٹی کیلئے دن رات کام کر رہے ہیں اور انہوں نے برسی کے موقع پر وسیب کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبوں سے بھی قوم پرستوں کو بلوایا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بیرسٹر صاحب اپنی مرقد سے بھی وسیب کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ تحریک میں بہت دیر سے آئے مگر پیپلز پارتی اور بعد ازاں خورشید حسن کی جماعت میں ہوتے ہوئے بھی ان کے دل میں وسیب کی محبت موجود تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلزپارٹی میں ان کو اہم مرتبہ حاصل تھا اور پی پی کے مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری تھے اور بھٹو صاحب سے بھی ان کو قرب حاصل تھا مگر ان کو بہت بلند مقام و مرتبہ سرائیکی تحریک میں حاصل ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو بھی اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتا ہے، ماں دھرتی اس کو اعلیٰ و ارفع شان، مقام و مرتبہ عطا کرتی ہے۔
بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ 1939ء میں کہروڑ پکا کے دور دراز دیہی علاقے بہار دی گوٹھ میں پیدا ہوئے، میٹرک بہاولپور اور گریجویشن لاہور اور 1964ء میں بار ایٹ لا کی ڈگری انگلینڈ سے حاصل کی، تحصیل علم کے بعد وہ کچھ عرصہ حکومت برطانیہ کے قانونی مشیر بھی رہے۔ دوران تعلیم برطانیہ میں ان کی ملاقات ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی جو دوستی میں تبدیل ہو گئی اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو وہ اس کے بنیادی رکن تھے۔ 1970ء کا الیکشن انہوں نے ممتاز دولتانہ کے خلاف لڑا اور 75000 ووٹ حاصل کئے اور جب تک پارٹی میں رہے ان کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوا اور وہ مرکزی ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔
صوبہ محاذ ستر کے عشرے میں قائم ہوا اور اس کا کریڈٹ اہل بہاولپور نے حاصل کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ملتان میں 1973ء میں کانفرنس ہوئی، جس میں بہاولپوری، ریاستی اور ملتانی زبان وغیرہ کے ناموں کو سرائیکی کا نام دیا گیا۔ حالانکہ یہ کانفرنس 1973ء میں نہیں، 1962ء میں منعقد ہوئی۔ اس کا حوالہ دیکھیں۔"1962ء میں ہونیوالی کانفرنس میں ارشد ملتانی، علامہ طالوت، میر حسان الحیدری، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ریاض انور ایڈووکیٹ، مولانا نور احمد خان فریدی، اختر علی خان بلوچ، غلام قاسم خان خاکوانی، سیٹھ عبیدا لرحمن بہاولپوری شریک ہوئے۔ کانفرنس میں ملتانی، دیروی، ریاستی، جھنگوچی وغیرہ کا ایک نام سرائیکی پر اتفاق کیا گیا۔" (بحوالہ سرائیکی۔ خاص آوازاں دی کہانی، مصنف پروفیسر شوکت مغل، صفحہ 71)
وسیب کو جنوبی پنجاب کا نام دینا قطعی طور پر غلط ہے کہ سرائیکی بولنے والوں بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے، دوسرا یہ کہ عظیم سرائیکی قوم کا خطہ سرائیکی وسیب کسی صوبے کی ایک سمت کا نام نہیں بلکہ وسیب ایک مکمل خطہ ہے، جس کا تہذیبی، جغرافیائی و ثقافتی طور پراس کی اپنی پہچان ہے اور سرائیکی وسیب کی صرف عورت ہی نہیں مرد بھی تنزلی و پسماندگی کا شکار ہیں۔ آج ہر طرف لاہور کی حکمرانی نظر آتی ہے تو اس کا باعث لاہور کے تعلیمی ادارے ایچی سن کالج (قائم شدہ 1886)، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی (قائم شدہ 1860ء)، پنجاب یونیورسٹی (قائم شدہ 1882ء)، جی سی یونیورسٹی (قائم شدہ 1864ء)، ایف سی کالج (قائم شدہ 1864ء) ہیں جو انگریزوں نے قائم کئے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبہ بنوا کر ایچی سن، کے ای، جی سی اور ایف سی طرز کے ادارے وسیب میں قائم کئے جائیں، بصورت دیگر وسیب کے لوگ تعلیمی پسماندگی کی دلدل سے نہ نکل سکیں گے۔