دو دن سے لاہور میں ہوں، لاہور میں ہونیوالے سالانہ سرائیکی فیسٹیول کے سلسلے میں احباب سے ملاقاتوں کے علاوہ حکومت پنجاب کی نئی میڈیا پالیسی کے سلسلے میں سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور سے ملاقات کی اور پالیسی سے متعلق پرنٹ میڈیا خصوصاً ریجنل نیوز پیپرز کے مسائل سے راجہ صاحب کو آگاہ کیا۔ راجہ جہانگیر انور نے فرمایا کہ آپ نے روزنامہ 92 نیوز میں مسائل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ چیف منسٹر صاحب سے آپ کی ملاقات کا اہتمام ہو جائے تاکہ اخبارات کے علاوہ آپ اپنے وسیب کے مسائل کے بارے میں بھی چیف منسٹر صاحب کو آگاہ کر سکیں۔ دوسرے دن وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچا تو صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور وہاں موجود تھے۔ ان سے بھی میڈیا کے مسائل پر بات ہوئی۔ انہوں نے میری معروضات کو توجہ سے سنا۔
ایک بجے وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران انہوں نے نہایت شفقت فرمائی اور مسائل کو توجہ سے سنا۔ میڈیا سے متعلق انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ میڈیا کے مسائل حل ہونگے۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے متعلق میری درخواست سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور صاحب کے حوالے کی اور کہا کہ ریجنل نیوز پیپرز کو ریلیف ملنا چاہئے۔ ایک درخواست جو کہ میں نے عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز حاجی غلام فرید کنیرہ کے علاج اور امداد کے بارے میں لکھی ہوئی تھی وہ بھی وزیراعلیٰ نے سیکرٹری اطلاعات کے حوالے کی اور ہدایت کی کہ حاجی غلام فرید کنیرہ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، ان کی مدد ہونی چاہئے۔ میں نے اس موقع پر عربی کفیل اور مصری منیجرکے مظالم سے تنگ آ کر دبئی میں خودکشی کرنے والے چوٹی زیریں کے نوجوان صدام حسین ملغانی مرحوم کی بیوہ کی امداد کے بارے میں بھی بات کی اور بتایا کہ آپ کے حکم کے باوجود ابھی تک بیوہ کو ملازمت نہیں ملی۔ وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ ملازمت لازمی ملے گی۔
بحیثیت صحافی مجھے پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف سے ملنے کا موقع ملا ہے، سردار عثمان خان بزدار کو پہلی مرتبہ ملا ہوں، مجھے ان کی سادگی پر رشک آیا اور عثمان بزدار سابق وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں بہت مختلف نظرآئے، وزیراعلیٰ صاحب نے خود ہی ذکر چھیڑ دیا کہ میں اسلام آباد سے واپس آ رہا تھا، مجھے تھوڑا ٹائم ملا تو نیٹ پر آپ کے سرائیکی پروگرام کو دیکھا بہت مزہ آیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے خود کہا کہ اس کے علاوہ آپ جو کہنا چاہتے ہیں بات کریں میں نے کہا کہ وسیب کو صوبہ بھی چاہئے اور شناخت بھی، اس کے ساتھ صوبے کی حدود نہایت اہمیت کی حامل ہیں کہ ملتان ڈویژن جھنگ کے ہیڈ تریموں سے سیراب ہوتا ہے اور ڈی جی خان سمیت وسیب کے دیگر اضلاع میانوالی کے جناح بیراج سے سیراب ہوتے ہیں۔ پانی کے بغیر صوبہ کسی کام کا نہ ہوگا، میں نے کہا کہ عمران خان اور عثمان خان بزدار کے ہاتھوں سے ایسے کام ہونے چاہئیں جس کا ملک وقوم کو فائدہ ہو اور وسیب کے آنے والی نسلیں یاد کریں۔ اس پر عثمان خان بزدار نے کہا کہ آپ نے صوبے کے نام، صوبے کی شناخت اور حدود کی بات کی ہے تو اس کا حل کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اس کا حل صوبہ کمیشن کا قیام ہے۔ میری بات وزیراعلیٰ کو اچھی لگی اور کہا کہ ہم وزیراعظم صاحب کی خدمت میں یہ تجویز پیش کریں گے۔ اس کے ساتھ میں نے کہا کہ سب سول سیکرٹریٹ صوبے کا حل نہیں۔ صوبائی دارالحکومت بننا چاہئے اور اس کا مرکز ملتان ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وسیب بکھر جائے گا اور تو اور تونسہ کا آدمی بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے گا البتہ ملتان پر کسی کو اعتراض تو نہ ہوگا کہ ملتان قدرتی طور پر وسیب کے درمیان میں ہے۔
میں نے وزیراعلیٰ کو وسیب کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بہاولپور اور ڈی جی خان کو سی پیک سے محروم کیا گیا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ بہاولپور اور ڈی جی خان کو ملتان سکھر موٹر وے سے لنک اپ کیا جائے اور یہاں صنعتی بستیاں قائم کی جائیں جس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم بہاولپور کو سی پیک سے لنک دے رہے ہیں اور بہاولپور میں انڈسٹریل زون قائم کر دیا گیا ہے اور رحیم یارخان انڈسٹریل زون جوکہ سالہا سال سے زیر التوا تھا کو فنکشنل کر دیا گیا ہے اور تھل کے علاقہ چوبارہ میں بہت بڑا صنعتی زون بنا رہے ہیں اور انڈس ہائی وے کو بھی موٹروے بنایا جارہا ہے، جس کا فائدہ راجن پور ڈی جی خان، تونسہ اور ڈی آئی خان کو ہوگا۔
اس کے ساتھ میں نے وسیب میں کیڈٹ کالجوں کے قیام اور خانپور کیڈٹ کالج کی جلد تکمیل کے ساتھ کلاسوں کے اجراء کا مطالبہ کیا۔ میں نے وزیراعلیٰ صاحب کو تفصیل سے بتایا کہ 9 ویں اور 10 ویں جماعت کیلئے حکومت پنجاب نے سرائیکی نصاب منظورکیا ہوا ہے اور پنجاب کے تعلیمی بورڈز ہر سال سرائیکی پیپرز لیتے ہیں مگر وسیب کے ہائی سکولوں میں سرائیکی پڑھانے والے ٹیچروں کی آسامیاں نہیں دی گئیں۔ استدعا ہے کہ SST کی آسامیاں دی جائیں، وزیراعلیٰ نے میری درخواست کو توجہ سے سنا اور کہا کہ تعلیم کے مسئلے پر ہم بھرپور توجہ دے رہے ہیں۔ صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں سکولوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیاں بھی بنائیں گے۔ اگر کورونا کا عذاب نہ آتا تو صورتحال مختلف ہوتی اور ترقیات کی بہار آ جاتی۔ اس موقع پر مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ ہمارے وسیب کے ارکان اسمبلی حکام بالا کو حقیقی مسائل سے آگاہ نہیں کرتے، اگر ہمارے سیاستدان تھانہ پٹواری کی سیاست سے باہر نکل آئیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بندہ ناچیز کی ملاقات اس حوالے سے بہت اچھی رہی کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا اور اس امید کے ساتھ رخصت ہوا کہ وزیراعلیٰ صاحب بھی اپنا فرض نبھائیں گے کہ تحریک انصاف مرکز اور صوبے میں وسیب کے منیڈیٹ کی وجہ سے بر سر اقتدار ہے۔