Zaraat Par Tawajah Ki Zaroorat
Zahoor Dhareja200
وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ فخر امام اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مثالی کاشتکار بھی ہیں۔ توقع کی جارہی تھی کہ وہ زراعت کی ترقی اور کاشتکاروں کی بہتری کیلئے ہنگامی اقدامات کریں گے مگر یہ امیدیں نقش بر آب ثابت ہوئی ہیں۔ ہر فصل میں کاشتکاروں کو فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ویسے تو موجودہ دور میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں تباہی نہ آئی ہو ایگریکلچر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق وسیب میں کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے کم ہو کر صرف ساٹھ لاکھ گانٹھ رہ گئی ہے۔ پیداوار میں کمی، پانی کی قلت، ناقص بیج، نقلی کھاد و جعلی زرعی ادویات کی وجہ سے پیش آئی۔ اس سال کپاس کو خطرناک بیماری لگی، جس کی وجہ سے پیداوار انتہائی کم ہو گئی۔ کاشتکار کھاد بیج کے اخراجات بھی پورے نہ کر سکے۔ ان کا دیوالہ نکل گیا ہے، وہ کاشتکار جنہوں نے زمینیں مستاجری پر حاصل کر رکھی تھیں، وہ مستاجری کی رقم دینے سے بھی معذور ہیں۔ کپاس کی کم پیداوار کے باعث وسیب میں سینکڑوں کاٹن فیکٹریاں بند ہو گئیں، جس کے باعث ہزاروں ملازمین بیروزگار ہو گئے۔ کپاس کو وائٹ گولڈ کہا جاتا ہے، اگر حکومت توجہ دے تو اس سے ملکی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے کہ یہ واحد نقد آور فصل ہے جو کہ ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر وعدوں کے بر عکس زرعی شعبہ حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔ ملتان میں کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ موجود ہے مگر افسوس کہ کوئی کارکردگی سامنے نہیں آ سکی۔ زرعی و دیگر یونیورسٹیاں بھی اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا نہیں کر رہیں، یہ خوش آئند بات ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے کسان کنونشن کا انعقاد کیا ہے اور وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اطہر محبوب متحرک نظر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی معیشت اگر مضبوط بنیادوں پرکھڑی ہو جائے تو روپے کی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ اس فیصلے کے حوالے سے ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ پچھلے سال انڈسٹری نے جتنی بجلی استعمال کی اس سے زیادہ استعمال کریں گے تو رعایت ملے گی۔ بہرحال ہم امید کے دیے کو سامنے رکھیں تو اس صنعتی پیکیج سے تبدیلی کی ہوا چل پڑے گی، جب کہ اس سے قبل نہ تو ہم ورلڈ مارکیٹ کوکمپیٹ کر رہے تھے اور نہ ڈومیسٹک اسمال اینڈ میڈیم انڈسٹری کی طرف توجہ دی جا رہی تھی، اس پیکیج کے اعلان کے بعد یہ امید ہوچلی ہے کہ اس سے ہمارے ڈومیسٹک آئٹم پر بہت فرق پڑے گا اور چیزیں سستی ہوجائیں گی۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ بی ٹی بیج ہمارے لئے منحوس ثابت ہوا ہے، ان کا یہ بھی کہنا ہے زرعی یونیورسٹیوں میں تحقیق نہیں کرائی جاتی، صرف ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں اور سب کچھ دو نمبری سے ہو رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کاشتکاروں کو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نقصان صرف کاشتکاروں کا ہی نہیں ملک و قوم کا بھی نقصان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جا رہے ہیں، کھاد نہ صرف مہنگی ہو رہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہوجاتی ہے، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیا کو شدید مہنگا کردیا ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں، اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورتحال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی۔ جب بھی مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہوگا تو زرعی حوالے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ نا مناسب کھادوں، زہریلی زرعی ادویات کا استعمال ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔ محکمہ زراعت پر ہمارا کسان اعتبار نہیں کرتا اور کرے بھی کیوں؟ رواں سال کی مثال ہمارے سامنے ہے گندم کی وافر پیداوار ہوئی اور تخمینہ سے چھ لاکھ ٹن زیادہ گندم کی پیداوار ہوئی لیکن کسانوں کو اونے پونے فصل بیچنا پڑی۔ گندم کی کٹائی کے بعد کتنے دنوں تک ٹرالیوں میں گندم خریداری مراکز کے باہر کھڑی نظر آتی ہے اور کوئی کسان سے گندم نہیں خریدتا پھر کسان خود ہی اسے نجی شعبے کو سستے داموں بیچ دیتا ہے۔ ان تمام مسائل کے بعد کوئی کیسے کسانوں سے زیادہ پیداوار کی امید کر سکتا ہے؟ ڈیمز کی کمی اور بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں نے کسانوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا۔ رواں سال بھی صوبہ سندھ میں بارشیں ہوئیں، سیلاب آئے اور کپاس کی تقریباً پچاس فیصد سے زائد فصل تباہ ہو گئی۔ اس سیلاب کی وجہ سے کسانوں کو ستر ارب روپے اور ملک کو مجموعی طور پر ڈیڑھ سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وسیب زرعی ریجن ہے اور سب سے زیادہ کپاس سرائیکی وسیب میں کاشت کی جاتی ہے اور کپاس کا کچھ حصہ سندھ میں بھی کاشت ہوتا ہے۔ کپاس کے ہونے والے نقصان کا اندازہ کھربوں میں ہے، حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہوگی کہ کپاس کے نقصان سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی بہت زیادہ نقصان کا خدشہ ہے کہ کپڑے کی مصنوعات اور خام کپاس کی برآمد نہ ہونے سے بھی قومی خزانے کو نقصان کا سامنا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور عوام اس صورت حال سے انتہائی پریشان ہیں۔ آٹا اور چینی مافیا نے تو جو کھیل کھیلا اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن کیا اب یہ سمجھا جائے کہ سبزی مافیا بھی دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہا ہے اور حکومت صرف بیانات کی حد تک کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ عوام کو سستی خوراک مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے اس کے لیے ناگزیر ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے جدید ترین طریقے اپنائے جائیں۔ کپاس کی پیداوار میں ہونے والی کمی سے ملک کو زرمبادلہ میں جس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر رونما ہوتے ہیں۔