حکومت کی اس کاوش کو داد نہ دینا زیادتی کے زمرے میں آئے گا، جو اس نے حب الوطنی کو فروغ دینے کے لئے ایک طویل فہرست جاری کر کے کی ہے۔ اس فہرست میں غیر محب وطن عناصر کے ٹویٹس کا ڈیٹا ہے۔ بڑے جید قسم کے غیر محب وطن افراد کے نام اس میں شامل ہیں۔ سیاستدان بھی، صحافی بھی، ایرے بھی غیرے بھی اور نتھو قسم کے خیرے بھی۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض عوامی حلقوں اور میڈیا کے کچھ حصوں میں اس کاوش کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اس بات کو خصوصی طور سے تنقید کا ہدف بنایا جا رہا ہے کہ حکومتی رپورٹ میں جو نقشہ دکھایا گیا ہے، اس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بتایا گیا ہے۔ کتنا غیر ضروری اعتراض ہے۔ خارجہ امور کے عالمی مدبر شاہ محمود قریشی نے حق سچ کی بات کی کہ مقبوضہ کشمیر پہلے ہی بھارت کے پاس ہے۔
٭حضرات گرامی قدر، حب الوطنی کو فروغ دینا کوئی آسان کام نہیں۔ دن رات کی مشقت ہے جو یہ حکومت ادا کر رہی ہے۔ بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ شبانہ روز ٹویٹ جاری کرنے اور ٹرینڈ چلانے پڑتے ہیں، جن میں قوم کو بتایا جاتا ہے بلکہ یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ فلاں فلاں غدار ہے، مودی کا یار ہے، بھارتی بیانیے کا وفادار ہے۔ ٹی وی چینلز پر بزرگواروں کی پلٹن بٹھانا پڑتی ہے جو غداری کے فتوے جاری کرتی اور غداروں کی نشانیاں بیان فرماتی ہے۔ کالم نویسوں کی ایک کھیپ کو چوبیس گھنٹے مواد فراہم کرنا پڑتا ہے، تقریریں کرنا پڑتی ہیں اور بیانات جاری کر کے قوم کو غداروں کے ناموں اور ان کی غداریوں کی تفصیل بتانا ہوتی ہے۔ حب الوطنی کو فروغ دینے کا کام تین سال پہلے تک بند تھا۔ ابتدا اس کی ایوب خاں نے کی تھی۔ ایوب خان بلا کے دلیر اور بہادر تھے۔ ذرا بھی کم ہمت ہوتے تو قوم کو کون بتاتا کہ فاطمہ جناح عرف مادر ملت کون تھیں۔
یہ انکشاف خارا شگاف بھی کیا تھا کہ مولانا مودودی بیک وقت بھارت اور امریکہ دونوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس وقت اس مرد حق کا اور حق گو کو کہاں خیال تھا کہ ایک دن انہیں کتاب موسومہ فرینڈز ناٹ ماسٹر بھی لکھنی پڑ جائے گی۔ ایوب کے بعد یحییٰ کا دور بھی اسی حب الوطنی کا تسلسل تھا۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت آ گیا۔ ضیاء الحق نے آ کر حب الوطنی کے دور دورے کو پھر سے رواج بخشا۔ افسوس کہ ان کے شہید ہونے کے بعد کامل دس سال غیر محب الوطن عناصر کا راج رہا۔ پھر خیر سے حب الوطنی کا ایک نیا سورج پرویز مشرف کے نام سے طلوع ہوا جس نے غداری کے اندھیروں کو اندھیر کوٹھڑی میں دفن کر دیا۔ وہ دور بھی ختم ہوا اور ایک نیا مایوس کن زمانہ آیا جو دس سال جاری رہا۔ آخر مرد خامس، غازی دوراں، فاتح زماں کو زمام کار دی گئی، جس نے قوم کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور حال ہی میں انہوں نے بتایا کہ کاریں اور موٹر سائیکل بڑی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں، جس کا مطلب ہے غربت ختم ہو گئی۔ خوشحالی رقص کناں ہے۔ ملک اوپر کی طرف اٹھ رہا ہے اور اب ہمیں بس ایک کام کرنا ہے، یہ کہ غداروں کا قلع قمع کرنا ہے۔ جو جنگلی گھاس کی طرح ہر طرف پھیل رہے ہیں۔
٭غیر محب وطن افراد پارلیمنٹ میں بھی موجود ہیں، تازہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ارکان نے ایف بی آر سے مطالبہ کر دیا کہ اس شخص یا ان افراد کے نام بتائے جائیں جنہوں نے خوراک کی ذیل میں آنے والی اشیا درآمد کیں اور 5ارب کا ٹیکس چوری کر لیا جو دراصل انہیں معاف کر دیا گیا۔ ارکان کا مطالبہ تھا کہ ان "چہیتوں "کے نام بتائے جائیں کیونکہ خاں صاحب کی حکومت تو اتنی ایماندار ہے کہ کاغذ میں ایک لفظ بھی نامکمل ہو تو غریب آدمی کا گھر مہلت دیے بغیر گرا دیا جاتا ہے لیکن ایف بی آر نے کہا کہ یہ نام امانت ہیں، بتائے نہیں جا سکتے۔ گویا ایف بی آر نے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا اور غیر محب وطن عناصر کی سازش ناکام بنا دی۔
٭تو اے ارض وطن، خود کو غیر محب وطن ہونے سے بچائیں۔ مہنگائی میں مسلسل اضافے کا خیر مقدم کریں، کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بڑھنے کو ترقی کی نشانی مانیں۔ شاہی پروٹوکول کے نظارے جنت نگاہ سمجھیں، سفارتی تنہائی کو اپنے بے مثال ہونے کا ثبوت سمجھیں، آزادی اظہار کو دیوانے کا خواب سمجھیں۔ کرپشن کے نمودار ہونے والے ہر سکینڈل پر غضِ بصر سے کام لیں اور یہ شعر یاد کر لیں کہ اس کا شکر ادا کر بھائی، جس نے پی ٹی آئی بنائی۔
٭طالبان نے کابل پر قبضہ گویا یک لخت ہی کر لیا۔ تمام تجزیے غلط نکلے۔ اتفاق رائے تھا کہ امریکہ کابل شہر پر قبضہ نہیں ہونے دے گا اور وہ چاہتا ہے کہ ایک بڑے حصے کا طالبان بھلے قبضہ کر لیں لیکن کابل قندھار سمیت ایک حصہ سرکار کے لئے چھوڑ دیں۔ خود امریکہ نے کہا ہے کہ وہ قبضہ برداشت نہیں کرے گا لیکن پھر سب چپ چپیتے ہی ہو گیا۔ سپاہ سرکار کے غبارسے ہوا نکلی۔ کچھ نہ کچھ پراسرار ہے۔ امریکہ کی خاموشی اور بھی پراسرار۔ بہرحال، 20سال پہلے والا افغانستان لوٹ آیا ہے۔ اچھی خبر، غیر متوقع طور پر، یہ آئی ہے کہ طالبان نے بچیوں کی تعلیم جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جو آبادی طالبان سے ڈرتی ہے، ان کے ڈر میں کچھ کمی ہو گی۔ معاملہ کیا واقعی نمٹ گیا یا امریکہ پھر سے کوئی وار کرے گا، کسی نئے کھیل، کسی نئی سازش کا ڈول ڈالے گا۔ اگلے کچھ دنوں یا ہفتوں میں شاید پتہ چلے۔ اللہ خیر ہی رکھے۔