Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Abhi To Mehez 26 Mah Hue Hain

    Abhi To Mehez 26 Mah Hue Hain

    حکومت کی طرف سے غدار غدار کا وہ طوفان شور اٹھایا جا رہا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ حکومت بھی کیا کرے، یہ شور اٹھانا اس کی مجبوری ہے۔ وہ یہ غل نہ مچائے تو مہنگائی پر عوام کی چیخ و پکار اس کے کان کے پردے پھاڑ دے۔ اسے مہنگائی پر شور سننا پسند نہیں، وہ محض مہنگائی بڑھانا ہی پسند کرتی ہے اور کیے چلی جا رہی ہے۔ عوام کا شور بڑھتا جا رہا ہے، کرپشن کا ہتھیار نہیں چلا، غدار کا شور کتنے دن چلے گا، حکومت جس شور کو سننا پسند نہیں کرتی اور اسے سننا ہی پڑے گا اور حکومت ابھی اندازہ نہیں کر رہی کہ یہ شور سب کچھ بہا لے جائے گا۔ اور مہنگائی بھی کیسی۔ لوگوں کی حقیقی آمدنی پہلے سے کم ہو گئی اور اخراجات دو گنے سے بھی بڑھ گئے۔ جو پہلے 20ہزار میں بمشکل گزارا کرتا تھا، اب اسے بمشکل گزارے کے لیے 60ہزار بھی کم پڑ گئے لیکن اس کے پلے میں تو وہ 20ہزار بھی نہیں رہے۔ ہر شے دوگنی تگنی مہنگی ہو گئی، بچوں کی ٹافی بسکٹ کا تو ذکر ہی کیا، ان کی سوکھی روٹی پر بھی کٹ لگا دیا گیا عاس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر آوے

    مہنگائی پر ایک بڑے اخبار نے تین روز پہلے خبر چھاپی جس میں سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ غذائی اشیاء مہنگی ہوئی ہیں لیکن غیر غذائی اشیا مہنگی نہیں ہوئیں (چنانچہ فکرمند ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں )۔ غیر غذائی اشیاء سے کیا مراد ہے؟ ٹائر ٹیوب، بجلی کا گھمبا، ٹرین کی پٹڑی یا توپ کا گولہ؟ واللہ اعلم۔ بہرحال، یہ سرکاری ذرائع غالباً دوائوں کو بھی اشیائے خوردنی سمجھتے ہیں کہ آخر میں تو کھانے کی چیز چنانچہ چار پانچ گنا مہنگی ہو بھی گئیں تو کیا پریشانی اور پریشانی تو تب ہوئی جب غیر غذائی اشیاء کی قیمت بڑھ جاتی لیکن بھلا یہ تو فرمائیے، کیا تھرما میٹر بھی کھانے کی شے ہے۔ چالیس روپے کا تھا، اب دوسو روپے کا ہو گیا۔ سکول کے لیے کاغذ کاپی پنسل بھی مہنگے ہو گئے۔ سرکاری ذرائع کے خیال میں یہ بھی اشیائے خوردی ہیں؟ تیل مہنگا ہونے سے ٹرانسپورٹ کرائے دوگنا ہو گئے۔ کیا یہ سفر اور نقل و حمل بھی کھانے کی چیز ہے؟ شاید۔ ایک فلم میں مزے کا سین تھا۔ سنجو کمار کو بس سٹاپ پر بس کا انتظار کرنا تھا۔ بس بہت آہستہ آہستہ آ رہی تھی۔ آ بھی چک، کیوں اتنی تو فوٹیج کھا رہی ہے۔ فوٹیج یعنی فلم کاحصہ ضائع کر رہی ہو۔ اس ڈایئلاگ سے مدد لی جائے تو پھر سفر بھی کھانے کی ہی چیز ہوئی۔ حضور ذرائع صاحب، تصدیق فرما لیجیے، غیر غذائی اشیاء بھی بہت مہنگی ہو گئی ہیں، کیا کپڑے، جوتے، کیا بلب اور ٹیوب لائٹ، کیا میز اور کرسی یہاں تک کہ پلمبر کے ریٹ بھی بڑھ گئے ہیں۔ تصدیق نہیں فرماتے تو آرڈیننس جاری فرما کے جملہ اشیائے استعمال کو اشیائے خوردی قرار دے دیں۔

    وزیر اعظم نے فرمایا، لوگ تبدیلی کا بے جا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ ہمیں آئے ہوئے ابھی 26ماہ ہی تو ہوئے ہیں۔ یہ بیان انہوں نے ماہ گزشتہ یعنی اکتوبر کی 28تاریخ کو دیا۔ گویا اس وقت چھبیس ماہ سے بھی تین چار دن اوپر ہو چکے ہیں اور وزیر اعظم نے لگ بھگ دو سال پہلے یعنی جولائی 2018ء میں فرمایا تھا، لکھ لو، پہلے سو دنوں میں تبدیلی لا کر رہوں گا۔ یاد رکھو، تبدیلی پہلے سو دنوں میں نہ آ سکی تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔ اس پرانے بیان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ خود اپنی تشریح ہے۔ ویسے یاد ہو گا، سودن گزرنے کے بعد مزید چھ ماہ مانگے تھے اور جب یہ چھ ماہ بھی گزر گئے تو نوید سنائی گئی تھی کہ یہ تکلیف کا سال تھا اگلا برس خوشی اور ریلیف کا سال ہو گا۔ پورا سال گزرنے کے بعد کہا گیا کہ نیا سال ترقی اور خوشحالی کا ہو گا۔ تیسرا سال شروع ہونے پر بھی یہی اعلان ہوا کہ خوشحالی اور تعمیر و ترقی کا سال آ گیا۔ پھر جو خوشحالی آئی اس نے دیکھ لی۔ دیکھ کیا لی، بھگت بھی لی۔ بہرحال 26ماہ کے ساتھ صرف کالا حصہ سن کر یہ پرانی بات یاد آ گئی تو ماتھے پر شکن بھی آ گئی لیکن معاً خیال آیا کہ وہ پرانا عمران تھا، اب تو نیا عمران آ چکا ہے، خیال آتے ہی ماتھے کی شکن رفع دفع ہو گئی۔

    سخت گیر تجزیہ نگاروں میں سے بعض پکار اٹھے ہیں کہ کرپشن کا بیانیہ ٹھس ہو گیا، یہ غداری والا کارڈ بھی نہیں چلے گا۔ ایک سابق نیاز مند نے لکھا کہ کرپشن اور غداری کی باتوں کا لوگ اب مذاق اڑانے لگے ہیں۔ کرپشن کا بیانیہ تو خیر نواز شریف کیخلاف تھا، کیس دو سزائوں کے بعد ہی ٹھس ہو گیا تھا، جب پتہ چلا کہ آمدنی اثاثوں والے فارمولے اور جائیدادوں کی فرضی ملکیت کے تحت ہوئی ہے۔ پھر جب دو سال میں بھی لوٹی ہوئی رقم کا بھی ایک عجیب راز ہے۔ عمران خان فرمایا کرتے تھے، نواز شریف اس قوم کا تین ہزار کروڑ(کبھی یہ بھی فرمایا کہ تین ہزار ارب) چوری کر کے لیے گیا۔ راز یہ ہے کہ یہ تین ہزار کروڑ یا ارب کی گنتی آئی کہاں سے؟ پاکستان یا کسی بھی عالمی ادارے کے کاغذات میں کہیں بھی اس رقم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پھر یہ خان صاحب کو کہاں سے ملی؟ یہ وہ راز ہے جسے ایک ہیرا بھی کھولنے سے قاصر ہے۔ خیر، یہ تو کافی پرانی بات ہو گئی۔ قدرے نئی بات یہ ہے کہ سال بھر پہلے وزیر اعظم نے قوم سے خطاب فرمایا اور کہا، پچھلی دو حکومتوں نے 30ہزار ارب روپے کے قرضے ہڑپ کر لیے۔ اس کی تحقیقات کے لیے تمام تفتیشی اداروں پر مشتمل کمشن بنا رہا ہوں جو رپورٹ دے گا۔ پھر یہ رقم ان چوروں سے نکلوائی جائے گی۔ وزیر اعظم کے اس طرح مصرعہ پر چیئرمین نیب نے بھی گرہ لگائی اور جابجا فرمانے لگے کہ اتنے قرضے لیے، کہاں گئے، برسرزمین تو کچھ بھی خرچ ہوتا نظر نہیں آیا۔ کمال ہے جناب!آپ کوکرپٹ لوگوں کے ذاتی محلات ذرا بھی نظر نہیں آئے۔