برطانیہ نے یہ کیا کیا، پاکستان کے عظیم قومی اثاثے رائو انوار پر سفری پابندی لگا کر برطانیہ میں ان کے وہ اثاثے ضبط کر لئے جو انہوں نے انسانی فلاحی سرگرمیوں یعنی حق حلال کی کمائی سے بنائے تھے۔ فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس کے ترجمان نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رائوانوار چار سو سے زیادہ بے گناہ افراد کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ توبہ، توبہ۔ یہ چار سو افراد تو اس نے خس کم، ملک پاک کے اصول پر مارے تھے۔ ان میں وہ نقیب اللہ محسود بھی تھا جس کے نام میں شامل لفظ۔ محسود، ہی اس کے قابل دار ہونے کے لئے کافی تھا۔ نادان برطانوی محکمہ کو پتہ نہیں کہ یہ انوار رائو انوار کا مقام کیا ہے۔ یہ اس ہستی کا نام ہے کہ جس کی طرف میلی نظر ڈالنے والا پاکستان میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ وہ عظیم اور لازم الاحترام وجود ہے جس کی آمد پر ڈیم والا بابا بھی بھری کچہری میں اٹھ کر کورنش بجا لیتا تھا اور لرزتے کانپتے لہجے میں یوں گویا ہوتا تھا کہ کیا محترم رائو انوار صاحب تشریف لے آئے ہیں اور جواب میں بتایا جاتا کہ جی حضور، عقبی راستے سے تشریف لے آئے ہیں اور ساتھ ہی ان کی گاڑی تھی اسی راستے سے تشریف لے آئی ہے۔ یہ عقبی راستہ وہ ہے جو وی آئی پی حضرات کے لئے بھی نہیں کھولا جاتا، صرف وی وی آئی پی معززین کے لئے کھلتا ہے۔ نادان برطانیہ کیا جانے کہ لندن میں جائیدادیں ضبط کرنے سے اس عظیم ہستی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اس سے سوگنا جائیدادیں، اثاثے، کاروباری مراکز اس وجود بامسعود کے کراچی میں ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ برطانیہ کچھ بھی کر لے، رائو صاحب کا نام اس سلسلتہ الذّھب کی ایک نمایاں کڑی بن کر جگمگاتا رہے گا۔ جس میں پرویز مشرف، احسان اللہ احسان، روئوف صدیقی(بلدیہ ٹائون) صفدر حسن (کارنامہ ساہیوال) وغیرہ مقدسین کے نام پہلے ہی جگمگا رہے ہیں۔ کاش، رائو انوار کے اثاثے ضبط کرنے اور ان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے کبھی پاکستان آئیں تو انصاف انہیں اپنے شکنجے میں لے۔ پولیس مقابلے میں نہ سہی"کورونا" کے ذریعے ہی سے سہی، اپنے انجام یعنی کیفر کردار تک نہ پہنچیں تو نام نہیں۔
پی ایم ڈی کی تحریک زور پکڑ رہی ہے تو طرح طرح کے لوگ اس کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں دو روز پہلے پاکستان میں انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں نے بھی ملاقات کی۔ وفد میں آئی اے رحمن بھی شامل تھے۔ وفد نے پی ایم ڈی کی جدوجہد کی حمایت کی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے کا کہا۔ لاحول ولا۔ تحریک اچھا بھلا زور پکڑ رہی ہے۔ یہ وفد والے کیا چاہتے ہیں کہ پی ایم ڈی کی قیادت اپنی تحریک سمیت لاپتہ ہو جائے۔ ویسے، برسبیل تذکرہ، یہ انسانی حقوق کس چیز کا نام ہے؟ کوئی معجون ہے، شربت ہے یا کسی دوائی محلول کا نام ہے۔ بہرحال نام سنا سنا لگتا ہے۔ ادھر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں کچھ لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کی خبر تو دو سطروں میں چھپ گئی، پھر کیا ہوا، یہ لوگ کہاں گئے، گھروں تک واپس پہنچے کہ نہیں، کچھ خبر نہیں۔ کچھ غریب محب وطن عناصر لاپتہ کرنے کے عمل پر تنقید کرتے ہیں۔ نادان نہیں جانتے کہ اسی عمل کی وجہ سے پاکستان دنیا کے تین چار ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ نادان ملک کو اس مقام بلند سے کیوں محروم کرنا چاہتے ہیں؟
مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے مطالبہ کیا ہے کہ کابینہ کے کرپٹ وزیروں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کئے جائیں۔ عجیب ناقابل عمل مطالبہ ہے۔ ایک تو اس لئے کہ فہرست میں اتنی جگہ کہاں سے ہو گی کہ اتنے سارے نام اس میں شامل کئے جائیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان وزیروں میں سارے نہ سہی، پندرہ بیس تو ایسے ہیں جو"قومی اثاثے" مانے جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں ایسا سوچنا قومی مفاد کے سخت خلاف ہے۔ ایک اور بات۔ لگتا ہے احسن اقبال خود کولگنے کا زخم بھول گئے جو پھر سے شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔
وہ خبرپڑھ لی ہو گی جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ کلاس اپنی گاڑیاں بیچنے کو پھر رہی ہے کہ دوسرے خرچے پورے کر سکیں )
وہ صاحب جن کی وزارت ریلوے کے دو سالہ عرصے میں ریل گاڑیوں کو 121حادثات ہوئے اور سینکڑوں مسافر(انہیں عوام تو بہرحال نہیں کہہ سکتے، عوام تو ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں ) جان سے گئے، اب خیر سے داخلہ امور کے وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ داخلہ امور میں ان کے آنے کے بعد خدا ہی جانتا ہے کیا ہو گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ موصوف نے ماضی میں تاریخی اور تاریخ ساز کردار انجام دیا تھا۔ اس کے پیش نظر انہیں وزارت داخلہ دی گئی ہے تاکہ اپوزیشن کی منہ زور ہوتی ہوئی تحریک کو روکا جا سکے۔ جن میں موصوف کے دوست پورے سکھ چین سے چین کی بنسری بجا سکیں۔ فی الوقت اس بانسری کے سر کچھ بے سرے سے ہوئے لگتے ہیں۔ موصوف کو ماضی میں کچھ ناقابل اشاعت القابات سے نواز چکے ہیں جن کی ویڈیو کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پر خوب چل رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کو تو میں اپنا ملازم بھی نہ رکھوں۔ بھلا ہو پی ڈی ایم کا جو ملازم بننے کا سزاوار بھی نہ تھا۔ اب اپوزیشن کی تحریک پر اس کا جادو چلے گا۔ جو بزرگوار ان سے پہلے وزیر داخلہ تھے، اب انسداد منشیات کے وزیر بنا دیے گئے ہیں۔