کورونا جاتے جاتے پلٹ آیا۔ اڑھائی تین ہفتے پہلے زور بہت مدھم ہو گیا تھا۔ اب پھر زوروں پرہے، شرح سات آٹھ فیصد ہو چکی ہے، روزانہ ستر اسی اموات ہو رہی ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب بھی کورونا کا زور کم ہونے لگتا ہے، حکومت پابندیاں ہٹا لیتی ہے۔ کمزور پڑتے عفرت میں پھر سے جان پڑ جاتی ہے۔ لگتا ہے، حکومت کو کورونا سے جدائی قبول نہیں، وہ جانے لگتا ہے تو یہ پکارتی ہے، ارے بھیا کورونا، رکونا، سونا اور کورونا صاحب رک جاتے ہیں۔ اب تیسری چوتھی بار ہوا اور پھر حکومت کو یہ ضد بھی ہے کہ مان لو، ہماری حکمت عملی کی ساری دنیا معترف ہے۔ کورونا سے حکومت کو بہت فائدے ہیں شاید اسی لئے اس بلا کو ٹلنے نہیں دیا جا رہا۔ سیاسی فائدے اپنی جگہ، ان پر بہتوں نے لکھا۔ معاشی فائدے بھی ہیں۔ مثلاً کورونا فنڈ اربوں کھربوں کا آیا، نہ جانے کدھر گیا۔ واہ، ناصر کاظمی مرحوم کی مشہور غزل یاد آ گئی۔ کدھر سے آیا کدھر گیا وہ مالیات کی گلی تک تو جاتے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ۔ ایسی ہی فائدہ سرکاری ویکسین میں بھی کی گئی۔
٭فائدہ سرکاری سے یاد آیا۔ زبردستی عبور کرا کے"حد" جاری کرنے کا رسم بھی اسی حکومت نے ایجاد کی۔ بجلی اتنی مہنگی کر دی کہ لوگوں نے بلب کم کر دیے، پنکھے بند رہنے لگے لیکن سب بے کار کیونکہ حکومت نے مہینے میں دو بار کے حساب سے بجلی اتنی مہنگی کر دی کہ جس کا بل پانچ ہزار کا تھا، اب 18ہزار کا آتا ہے اور جس کا دس ہزار آتا تھا، اس کا 25ہزار آتا ہے۔ چنانچہ نیا قانون یہ نافذ کر ڈالا کہ جس کا بل تیس ہزار کا آئے گا، اسے سات فیصد ٹیکس الگ سے دینا ہو گا۔ لوگ اب کدھر جائیں؟ حکومت کی مالیاتی زنبیل یک طرفہ ہے۔ جو کچھ ڈالو غائب ہو جاتا ہے، باہر کچھ نہیں آتا ہے۔ حکومت نے اسی یکطرفہ ٹریفک کا نام "ریلیف" رکھ ڈالا ہے۔ چنانچہ جو وزیر اٹھتا ہے، یہی کہتا ہے کہ جتنا ریلیف عوام کو ہم نے دیا، کسی اور نے نہیں دیا۔
٭ختم ہونے والے ہفتے کی شروعات میں ایک بیان نے دھوم مچا دی کہ انہوں نے تین ساڑھے تین سال پہلے اپنے مخالف لیڈر پر دس ارب روپے کی رشوت دینے کی پیشکش کا جو الزام لگایا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ حالانکہ ایک دن انھوں نے سرعام اور دن دہاڑے یہ بتایا تھا کہ انہیں پانامہ کیس کی پیروی سے باز رہنے کے لئے دس ارب کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس پر "رشوت دہندہ" نے ہتک عزت کا کیس دائر کر دیا۔ عرصہ تین سال گزرنے کے بعد یہ جواب آیا ہے۔ حضور، اتنی جلدی جواب دینے کی کیا تھی، تیس چالیس سال اور انتظار کر لیا ہوتا۔ کون سا یہ کیس فیصل ہونے جا رہا تھا۔ بہرحال فائدہ اس بیان سے یہ ہوا کہ ان کے عقیدت مندوں کو ایک بار پھر یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ دیکھو، ہمارا قائد سچ بولنے سے نہیں ہچکچاتا۔ سچ ہے بھئی سچ ہے۔
٭جناب کی حکومت نے گرمیوں میں مہنگی ترین ایل این جی خرید لی۔ چار کارگو فی ایم ایم بی ٹی یو 15ڈالر سے بھی زیادہ قیمت نہیں خریدے گئے۔ ہڑ بونگ سی مچ گئی ہے کہ اتنے مہنگے داموں، وہ بھی گرمیوں میں۔ ارے بھائی، گرمیوں میں ہر شے پھیلتی ہے، دام بھی پھیل گئے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگی ایل این جی کی وجہ سے ملکی گیس اور بجلی کے دام بھی بڑھ جائیں گے۔ نواز دور میں یہ ایل این جی ڈالر کے حساب سے خریدی تھی۔ جناب کی پارٹی نے تب انکشاف کیا تھا کہ اربوں کی لوٹ مار ہوئی ہے۔ نیب میں اربوں کی اس لوٹ مار کا ریفرنس اب بھی چل رہا ہے۔ نواز حکومت نے بھی 15ڈالر کے حساب سے یہ گیس خریدی ہوتی تو شاید اس الزام سے بچ جاتی۔ حاسد کہہ رہے ہیں کہ توانائی کا حالیہ بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تاکہ اتنی مہنگی ایل این جی خریدنے کا بہانہ مل سکے، بالکل ویسے ہی جیسے سال بھر پہلے تیل کا بحران پیدا کر کے تیل کی گراں قدری بڑھائی گئی تھی۔ اربوں روپے کی لوٹ مار سے یاد آیا، تین سو ارب والی اس لوٹ مار کا کیا بنا جو نواز شریف نے کی تھی اور جس کا ذکر ایک دن میں تین تین بار سننے کو ملتا تھا؟ ایک عرصہ سے خاموشی ہے اور ہاں یہ معاملہ اس دعوے سے الگ ہے جنہوں نے بتایا تھا کہ دوسو ارب ڈالر الگ سے چوری ہوئے ہیں، آتے ہی واپس لے آئیں گے اور پھر فلاں فلاں کے منہ پر ماریں گے۔
٭حکومت نے فرمایا"لاک ڈائون لگایا تو معیشت تباہ ہو جائے گی اور مزدور بھوکا مر جائے گا۔"لیکن یہ دونوں کام تو پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ اس لئے حکومت کو بے دھڑک لاک ڈائون لگا دینا چاہیے۔ ادھر حکومت کے ایک معاون خصوصی کا فرمان ہے کہ عوام کھانے کی عادات تبدیل کریں تبدیل کیوں بھئی، یہ عادت سرے سے ختم کیوں نہ کر دی جائے۔ ویسے حکومت عوام کو اسی طرف لے جا رہی ہے۔ معاون خصوصی نے بے کار میں بیان بازی کی۔