براڈ شیٹ سکینڈل بھی کس مزے کا بحران لے کر آیا۔ ایک اودھم سا مچ گیا اور اپوزیشن والے خوش ہیں کہ یہ اودھم پی ٹی آئی اور حکمران طبقات کے مشترکہ آنگن میں مچا ہے۔ (نوٹ۔ براہ کرم مشترکہ آنگن کو سیم پیج کا ترجمہ مت سمجھئے)عام آدمی کو سکینڈل گورکھ دھندا لگ رہا ہے لیکن اس گورکھ دھندے سے کچھ سیدھی اور صاف وارداتیں اس کی سمجھ میں بھی آ رہی ہیں اور وہ مزے لے رہا ہے۔ مثال کے طور پر یہ خبر اس کی دل پشوری، کے لئے خوب ہے کہ کچھ نیک پاک لوگ حصہ وصولی کے لئے پہنچ گئے۔ خبر میں حصہ وصولی والی بات البتہ وضاحت طلب ہے دراصل حصہ نہیں چندہ وصولی کے لئے گئے تھے۔ ظاہر ہے حکومت کو کچھ ترقی کے نئے دروازے کھولنے ہیں۔ نیک کام کے لئے نیک پاک لوگ چندہ لینے کا نیک کام کرنے گئے تھے۔
براڈ شیٹ سکینڈل سامنے آیا تو اس کے مالک موسوی کا یہ بیان بھی چھپا کہ نواز شریف کا ایک آدمی اسے رشوت دینے کی پیش کش کرنے آیا تھا۔ بڑے خان صاحب کو موقع ملا تو ہم نوائوں کی ہم نوائی میں نواز شریف پر چڑھ دوڑے لیکن اگلے ہی روز سارا مزا کرکرا ہو گیا، جس مالک نے مزید بیان دیا کہ ملنے والا کون تھا، میں نہیں جانتا۔ چنانچہ چڑھ دوڑنے کی مہم ادھوری رہ گئی لیکن اگلے ہی روز ایک اور سنہری موقع مل گیا جب ماسوی نے ایک اور بیان داغا کہ سعودی عرب سے ایک شخص نے ایک ارب ڈالر لندن بھجوائے، بس پھر کیا تھا خان صاحب نے قوم سے خطاب کھڑکا دیا اور کہا، دیکھو لوگو! کیسا اندھیر مچا ہے(مفہوم) ایک شخص نے قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے ایک ارب ڈالر لندن بھجوا دیے۔ ایک شخص کا نام انہوں نے نہیں لیکن لیکن خطاب کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ ایک شخص کا مطلب نواز شریف ہے۔ اس دوران ماسوی نے پھر وضاحت کی کہ یہ محض اسے ملنے والی اطلاع تھی ثبوت شہادت کچھ بھی نہیں۔ اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ رقم کسی نے بھجوائی بھی یا نہیں اور اگر بھجوائی بھی تھی تو وہ کون تھا۔ لیکن خان صاحب نے وضاحت کو نظرانداز کر دیا اور خطاب کھڑکا دیا۔ اس پر خوب لے دے ہوئی۔ ان کے مشیر احتساب ایک ٹی وی شو میں جا پہنچے اور میزبان کے استفسار پر تسلیم کیا کہ جناب ثبوت وغیرہ کوئی نہیں، بس کچی پکی بات ہے۔ اس پر میزبان نے کہا کہ پھر آپ بڑے خان صاحب کو سمجھاتے کیوں نہیں، خطاب کھڑکانے سے پہلے کسی سے پوچھ لیا کریں، بیان سوچ سمجھ کر دیا کریں۔ اس پر شہزاد اکبر ناراض ہو گئے۔ شاید سوچنے سمجھنے والی بات اچھی نہیں لگی۔
یہ تو چلئے مزاحیہ یا غیر سنجیدہ پہلو تھے، سنجیدہ رخ معاملے نے تب اختیار کیا جب یہ پتہ چلا کہ براڈ شیٹ نے لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے پر پاکستانی ہائی کمشن سے جو 5ارب کی رقم ضبط کی وہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی حکومت نے لندن بھجوا دی تھی۔ حکومت نے ایسا کیوں کیا؟ بظاہر اعتراض بنتا نہیں ہے اس لئے کہ نیک پاک لوگوں کی حکومت ہے اور نیک پاک لوگوں کو اکثر کشف ہو جاتا ہے۔ حکومت کو کشف سے پتہ چل گیا ہو گا کہ یہ فیصلہ آنے والا ہے پہلے ہی رقم بھجوا دیں۔ بس اتنی سی بات ہے، مشیر صاحب لندن کیوں گئے، یہ سوال بھی بلا ضرورت ہے یہی دیکھنے ہی گئے ہوں گے کہ پوری رقم حقدار کو مل جائے، کوئی 25فیصد کمیشن لینے تھوڑا ہی گئے ہوں گے جیسا کہ بعض احباب بتا رہے ہیں کہ کمشن سمیت سارے معاملات پہلے ہی طے کر لئے گئے تھے۔ توبہ توبہ مشیر خزانہ جیسے نیک سیرت کے بارے میں ایسی بدگمانی۔
براڈ شیٹ کا پنڈورا باکس ابھی کھل رہا ہے اور سنا ہے کہ گھر انگنا میں قیامت کا سماں ہے خوف ہے، ہراس ہے، اضطراب ہے، پریشانی ہے اور اندیشے ہیں کہ اب کیا ہو گا۔ کون بچائے گا۔ اس معاملے پر لکھنے والے لکھ رہے ہیں بولنے والے بول رہے ہیں اور سوچنے والے سوچ رہے ہیں، لہٰذا مزید لکھنے کی ضرورت نہیں، بس اتنا لکھے کو بہتا جائے اور انتظار فرمائیے، البتہ یہ بتانے میں کوئی خرابی نہیں کہ گھر انگنا میں فارن فنڈنگ کا ڈر اور بھی پہنچ چکا ہے۔ یہ ماجرا کسی ماجرے کو جنم دے گا۔ کیا پتہ لیکن سنا ہے کہ جن تگڑے ہاتھوں نے چھ سال تک یہ کیس چلنے ہی نہیں دیا وہ اب پیچھے ہٹتے نظر آ رہے ہیں۔ اپوزیشن اب اس معاملے پر زور لگانے کا طے کرچکی ہے اور حد تو یہ ہے کہ بڑے خاں صاحب کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے محترم سراج الحق نے بھی یہ بیان دے کر توپ کا گولہ داغ دیا ہے کہ سپریم کورٹ براڈ شیٹ معاملے پر بھی ازخود نوٹس لے۔
کیا ہو گا یہ تو آنے والا وقت بتا دے گا لیکن ایک مزے کی بات یہ ہوئی ہے کہ نیک پاک لوگوں کی جماعت نے فارن فنڈنگ میں یہ موقف اختیار کیا کہ چندے کی ترسیل میں اگر گڑ بڑ کی ہے تو غیر ملکی اداروں نے کی ہے یعنی گھوٹالے کے ذمے دار وہ ہیں ہم نہیں۔ مسلم لیگ کو شکر کرنا چاہیے کہ بڑے خاں صاحب نے اس گھوٹالے کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈال دی۔
پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ متحدہ اگر حکومت کے ساتھ رہی تو فارغ ہو جائے گی۔ یعنی ابھی فارغ ہونا باقی ہے؟ قاف لیگ کے تمام عہدوں پر انتخابات مکمل۔ واحد پارٹی جس کے تمام ارکان عہدیدار بن گئے۔ شکر ہے کوئی عہدہ خالی نہیں بچا۔ تمام پر ہو گئے۔