Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. China Model

    China Model

    رواں ہفتے کی سب سے دلچسپ خبر وہ تھی جس میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم نے وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کا اجلاس منعقد کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ اپوزیشن کی کرپشن کو اجاگر کرنے کے لئے پورا زور لگا دیں۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اڑھائی سال میں پورا زور نہیں لگا، ادھورے زور کا ازالہ کرنے کے لئے مشورہ ہے کہ محض سو ڈیڑھ سو وزیروں، مشیروں، معاونوں، ترجمانوں کا مختصر سا دستہ کافی نہیں ہے تو اتنے ہی اور رکھ لیں، شاید کچھ کامیابی مل جائے۔ ویسے عوام کی توقع کچھ اور تھی۔ خاں صاحب کی حکومت طاقتور ترین پوزیشن پر ہے۔ میڈیا کا اتفاق ہے کہ تمام ادارے اس کی پشت پر ہیں، مخالفانہ میڈیا کا پنجابی محاورے کے مطابق مَکّو پوری طرح ٹھپا جا چکا ہے ان حالات میں اپوزیشن کی کرپشن تو بہت اچھی طرح اجاگر ہو جانی چاہیے تھی۔ پھر کیا رکاوٹ ہے کہ یہ اشد ضروری قومی مفاداتی مشن بدستور ادھورا ہے۔ اتنی طاقتور حکومت سے جس کی پہنچ نہ جانے کہاں کہاں ہے، کوئی ایک آدھ ثبوت ہی عوام یا عدالت کے سامنے لے آتی تو قوم خوش ہو جاتی۔

    جب بھی کابینہ، وزیروں مشیروں معاونوں اور ترجمانوں کا اجلاس ہوتا ہے تو اس کے ایجنڈے میں مہنگائی کو کوئی جگہ نہیں مل پاتی۔ حالانکہ آج کا سب سے بڑا عوامی مفاداتی مسئلہ ہے۔ حکومت عوام کے بجائے قوم کو ترجیح دیتی ہے اسی لئے وہ اس ایشو پر نہیں آتی۔ وہ اپوزیشن کو ملیا میٹ کرنے کے یک نکاتی قومی مفاداتی ایجنڈے پر سارا زور لگا رہی ہے۔ البتہ کابینہ کے ہر اجلاس کے بعد کوئی نہ کوئی ترجمان عوام کو یہ ضرور بتاتا ہے کہ عوام کو ریلیف دینا حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات نے بھی یہی کیا۔ عوام اس پر جو تبصرے کرتے ہیں وہ قابل اشاعت ہیں نہ قابل سماعت۔ بہرحال، حکومت سے یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ سرکار، خدا کیلئے عوام کو ریلیف دینے والے نکتے کو اپنی آخری ترجیح بنائیں، شاید عوام کی گردن پر جو انگوٹھا آپ نے رکھا ہوا ہے، اس کے دبائو میں کمی آ جائے۔

    وزیر اطلاعات کے ذکر سے مزید یاد آیا کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات کی نہ جانے کیوں چھٹی ہو گئی۔ ابھی تین روز پہلے ہی وزیر اعظم نے ان کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے صوبائی وزیروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھی ان جیسا بننے کی کوشش کریں۔ اس سے پہلے کہ کوئی وزیر ان جیسا بننے کی کوشش کرتا، اس رول ماڈل کو فارغ کر دیا گیا۔ لطیف یہ ہوا کہ اپوزیشن کے "را" سے ہر رابطے کی پوری پوری اطلاعات رکھنے والے کو اپنی فراغت کی"اطلاعات" کا پتہ ہی نہیں تھا۔ انہیں یہ اطلاعات صحافیوں نے فراہم کیں۔ ایک اطلاع ان کے جانے کی، دوسری ان کی جگہ کسی اور کے آنے کی۔ رول ماڈل بے چارے سرعام بھونچکا رہ گئے۔ ان کی جگہ سابق وفاقی مشیر اطلاعات کو "ترقی" دے کر پنجاب کی یہ خالی ہونے والی اسامی تفویض کی گئی ہے۔ موصوفہ نے فرمایا ہے کہ ان کی تقرری اپوزیشن پر توپ کا گولہ بن کر گری ہے۔

    جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والے اب چین جیسا نظام لانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے حکمرانوں کے خیال میں ریاست مدینہ کا راستہ چین سے ہو کر جاتا ہو۔ ویسے خان صاحب اس سے پہلے کبھی سعودی عرب جیسا، کبھی ایران جیسا، کبھی شمالی کوریا جیسا اور کبھی سکینڈے نیویا کے ممالک جیسا نظام لانے کی خواہشات بارہا ظاہر کر چکے ہیں۔ یعنی یوں سمجھئے کہ منزل منزل دل بھٹکے گا والی شاہراہ کا سفر درپیش ہے۔ سفینہ تمنائے دل نہ جانے کہاں ٹھہرے۔ کون سا راستہ کہاں سے ہو کر گزرتا ہے، اس کا لطیفہ بھی کیا عبرتناک بلکہ درد ناک ہے۔ پرویز مشرف نے کارگل ایڈونچر کیا، مقصد توکچھ اور تھا لیکن بتایا کہ کشمیر کو یہی راستہ جاتا ہے۔ قاضی حسین احمد اور حافظ سعید نے مشرف کی تائید کی۔ نواز شریف نے کہا آزادی کشمیر کا کوئی راستہ کارگل سے ہو کر نہیں جاتا۔ وقت حالات اور نتائج نے نواز شریف کی تائید کی۔

    چین کا نظام کیوں دلکش ہے، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اس کی وجہ بھی بتا دی۔ کہا کہ وہاں انتخابی سیاست نہیں ہوتی۔ واقعی۔ انتخابی سیاست ہو تو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ عوام کسی اور کو ووٹ ڈالتے ہیں، ازالہ کرنے کے لئے آر ٹی ایس کا نظام، "بٹھانا" پڑتا ہے۔ نااہلیوں کے پروانے اور سزائوں کا فرمان جاری کرنے پڑتے ہیں۔ کاشتکاروں اور آبپاشی کے محکمے متحرک کرنا پڑتے ہیں، کسی کو ڈرانا، کسی کو پچکارناجکارنا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کھکھیڑ ہیں، اربوں کھربوں روپے اٹھ جاتے ہیں۔ اتنے بڑے جنجال سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ "چائنا ماڈل" ہی لگتا ہے۔

    ویسے ڈر ہے کہ کہیں چین میں بھی جمہوریت نہ آ جائے۔ ٹریک ریکارڈ دیکھیے، ماڈل کی تلاش لگ بھگ دو اڑھائی عشروں سے جاری ہے۔ پہلے انڈونیشیا ماڈل کے راگ الاپے گئے۔ وہاں جمہوریت آگئی، صادق و امین سوہارتوکی چھٹی ہو گئی۔ پھر بنگلہ دیش ماڈل کے ترانے گائے گئے، وہاں بھی جمہوریت بحال ہو گئی۔ اس کے بعد ترکی ماڈل کو نسخہ کیمیا بتایا جانے لگا۔ وہاں بھی جمہوریت نے میدان مار لیا اور ناقابل تسخیر ہو گئی!