عبدالقادر حسن بھی الوداع کہہ گے۔ انّاللہ و انّا الیہ راجعون۔ مرحوم صحافت کے استاذالاساتذہ کا درجہ رکھتے تھے اور کالم نویسی میں تو انہیں امام بھی کہا جا سکتا ہے۔ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک ان کا کالم تقریباً بلا ناغہ(بیچ کے ایک کئی سال کے وقفے کو چھوڑ کر) شائع ہوتا رہا اور قارئین سے داد پاتا رہا۔ ان کی صحافتی خوبیوں اور خدمات کو ایک دنیا جانتی ہے اور لکھنے والوں نے اس پر لکھا بھی ہے لیکن بطور آدمی بھی وہ بہت بڑے انسان تھے۔ شائستہ، خوش اخلاق، ہمدرد، راقم نے ان کے" ہفت روزہ آواز جہاں " میں سال بھر کام کیا۔ ذمہ داری اسے ترتیت دینے کے علاوہ ہر شمارے میں چار الگ الگ موضوعات پر مضمون لکھنے کی بھی تھی۔ اس دوران بے تکلفی ہونا قدرتی امر تھا لیکن کبھی ان کے منہ سے شائستگی اور تہذیب سے ہٹا ہوا فقرہ نہیں سنا۔ رسالہ مالی بحران کا شکار تھا لیکن عملے کو ہر پہلی تاریخ تنخواہ مل جاتی۔ بالآخر نامساعد حالات کے باعث یہ جریدہ بند ہو گیا لیکن ان سے تعلق خاطر رہا۔ نوائے وقت میں طویل عرصے تک آپ کا کالم مقبول ترین رہا۔ 1970ء کی دہائی میں ہفت روزہ افریشیا بھی نکالا جس نے نام پیدا کیا اور حلقہ قارئین بھی لیکن پھر وہ بھی گردش زمانہ کی نذر ہو گیا۔ البتہ عبدالقادر حسن کا نام بدستور جگمگاتا رہا۔ جنگ میں کئی برس کالم لکھنے کے بعد ایکسپریس سے وابستہ ہوئے اور آخر دم تک وہیں رہے۔ آخری کالم ان کا وفات سے ایک روز پہلے شائع ہوا، جس میں اپنی بیماری اور پھر صحت یابی کی اطلاع تھی۔ مرحوم کی اہلیہ محترمہ رفعت بھی صاحب اسلوب ادیب اور صحافی ہیں۔ خواتین کا ایک ماہنامہ آنگن کے نام سے نکالا جو شروع میں تو خوب مقبول ہوا، پھر شاید مالی حالات کی وجہ سے زندہ نہ رہ سکا۔ اس پرچے کی تدوین میں بھی عبدالقادر حسن کے مشورے شامل تھے۔ مرحوم ایک پورا عہد تھے اور اس سلسلے کی ایک اہم کڑی جس نے قیام پاکستان کے زمانے کو آج سے جوڑ رکھا تھا۔ افسوس، یہ کڑی ٹوٹ گئی، یہ باب بھی گم گشتہ ہوا۔ لیکن ثبت است برجریدہ عالم دوام ما۔ ایکسپریس ہی سے وابستہ ہونہار اور خوش تہذیب صحافی آصف ملی فرخ بھی چند دن قبل کورونا کی نذر ہو گئے۔ انّاللہ و انّا الیہ راجعون۔ ذہانت اور محنت زیادہ تر اکٹھے نہیں ہوتے لیکن آصف علی فرخ ان دونوں کا مرقع تھے۔ جس روز کورونا ہوا، مجھے اس کی اطلاع دی۔ میں نے جواب میں تسلی دی اور امید ظاہر کی کہ چند روز بعد ہسپتال سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس دوران سورۃ رحمن کی تلاوت سنتے رہیں۔ اس کے بعد ان سے رابطہ کٹا رہا۔ وہ ہسپتال سے فارغ ہوئے تو ضرور لیکن وفات کی دردناک اطلاع کے ساتھ۔ مرحوم کے والد محترم عاشق علی فرخ بھی کامیاب اور نامور صحافی تھے اور خوش اخلاقی کا نمونہ۔ خدائے رحمن مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ اور بیماری سے وفات کا جو اجر ہے۔ وہ بھی عطا کرے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35سالہ قید با اذیت اور قید تنہائی کے بعد کاون ہاتھی کو رہائی مل گئی اور وہ کمبوڈیا سدھار گیا جہاں اسے بہتر اور آزادانہ ماحول مل گیا ہے اور کئی ایک ساتھی بھی۔ رہائی تو ہو گئی لیکن چڑیا گھر انتظامیہ کے ذمہ داروں کو کچھ سزا نہیں ملی جو اس کی اذیت بھری زندگی سے لطف لیتے رہے۔ کاون کے سری لنکا سے لائے جائے کے کچھ عرصہ بعد ایک ہتھنی"سہیلی" کو لایا گیا لیکن کاون کی طرح اس کے پائوں بھی زنجیروں سے جکڑ دیے گئے اور وہ کاوان کی ساتھی نہ بن سکی۔ زنجیروں کے زخم نے بالآخر سہیلی کی جان بھی چلی گئی لیکن چڑیا گھر کے ذمہ داروں کو اس پر بھی کوئی سزا نہیں ملی۔ اسلام آباد چڑیا گھر کے ذمہ داروں نے دو شیر بھی دھوئیں سے دم گھونٹ کر مار ڈالے۔ اس جرم پہ بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی چڑیا گھر کے سینکڑوں جانور اور پرندے، اخباری رپورٹروں کے مطابق، لاپتہ چوری یا ہلاک ہو چکے ہیں۔ کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ کاوان کی رہائی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی مرہون منت ہے۔ وہ ایکشن نہ لیتے تو سہیلی کی طرح یہ بھی زخموں کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر چکا ہوتا۔
ایک کاوان کیا اور ایک اسلام آباد چڑیا گھر کیا، ہر چڑیا گھر میں بند ہر جانور ظلم کا نشانہ ہے۔ جانوروں کی ساری کیفیات وہی ہوتی ہیں جو انسان کی ہیں۔ دکھ اور درد انہیں بھی ہوتا ہے۔ تنہائی سے انہیں کبھی خوف آتا ہے۔ اپنے بچوں کے مرنے پر وہ بھی تڑپتے ہیں۔ انسان کی طرح آزاد فضا میں گھومنے پھرنے اچھلنے کودنے کی چاہت انہیں بھی ہوتی ہے، انہیں بھی جان کا تحفظ درکار ہے۔ خوف ڈر سے انہیں بھی سابقہ پڑتا ہے۔ انہیں بھی بھوک لگتی ہے اور پیاس ستاتی ہے۔ ذرا تصور کیا جائے کوئی آزاد انسانوں کو چند فٹ کے پنجرے میں ساری عمر کے لئے بند کر دے تو انہیں کیسا لگے گا؟ آزاد گھومتے جانوروں کو پکڑ کر انسانوں کی تفریح کے لئے چڑیا گھر میں بند کر دیا جاتا ہے۔
چڑیا گھر کا انگریزی نام"زو" ظالمانہ حس مزاح یا ستم ظریفی کاشاہکار ہے۔ یہ مخفف ہے زوالوجیکل گارڈن کا جس کا ترجمہ چڑیا گھر نہیں، جانوروں کا باغ ہے۔ کیا یہ قید خانے جانوروں کا باغ ہیں؟ عربی میں ہو بہو ترجمہ حدیقۃ الحیوانات کیا گیا ہے۔ درست نام زوالوجیکل انفرنو یا جانوروں کا جہنم ہونا چاہیے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں چڑیا گھر ختم کئے جا چکے ہیں اور ان کی جگہ سفاری پارکس لے رہے ہیں۔ بعض ممالک میں چڑیا گھروں کو وسیع کر دیا گیا ہے لیکن زیادہ تر ملکوں میں اور ان کی اکثریت مسلمان ہے یہ چڑیا گھر بدستور قائم ہیں۔ جانوروں کو اس طرح کی قیدمیں رکھنے سے اچھا ہے کہ انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔ یہ شیطانی چڑیا گھر دنیا بھر کے علمائے کرام، پادری اور فادر حضرات اور راہبوں پنڈتوں کی توجہ کے منتظر ہیں۔ وہ انہیں منافی مذہب قرار دیں اور ان کے خاتمے کا مطالبہ کریں۔