غزہ آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے اخبار نے لکھا ہے کہ اس حملے کی وجہ سے دنیا بھر میں یہودیوں سے نفرت عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ایک اور اسرائیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور یورپ میں یہود مخالف Anti semeticواقعات میں 438فیصد یعنی لگ بھگ ساڑھے چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اسرائیل کے ایک اخبار ہارٹیز کے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ہم نے غزہ میں تباہی اور بربادی تو پھیلا دی لیکن اسرائیلیوں کی زندگی بھی (حماس کے حملوں نے) تہس نہس کر دی۔ خونریزی کا نیا دور بھی ختم ہوا اور دونوں فریق سوچ رہے ہیں کہ کیا کھویا کیا پایا۔ اسرائیل نے عالمی نفرت میں اضافہ کمایا اور پہلی بار یہ خسارہ بھی ملا کہ مطمئن اور بے خوف یہودی شہری پہلی بار موت کے خوف میں مبتلا ہوئے(یہودی موت سے ڈرنے میں سرفہرست ہیں، قرآن پاک میں ارشاد ہوا)۔ اس سے پہلے لڑائی صرف غزہ اور مغربی کنارے میں ہوتی تھی، اس مرتبہ پہلی بار حماس کے میزائل تل ابیب تک پہنچے اور شہر کی رونقیں لوٹ کر لے گئے۔ اگرچہ ان میزائلوں سے خاص جانی نقصان نہیں ہوا(صرف تین یہودی ان میزالوں سے، تین دیگر واقعات میں مرے) لیکن میزائلوں کی بارش سے ہر ایک دبک کر رہ گیا۔ حماس نے اپنی قدرو قیمت بڑھا لی لیکن سب سے زیادہ گھاٹے میں غزہ کے عوام رہے۔ حماس کے اعلامیوں کے مطابق سوا دو سو سے زائد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ شہدا میں 73بچے شامل ہیں۔ شہدا کی اصل تعداد اتنی زیادہ ہے کہ لکھ ڈالو تو آپ یقین نہیں کریں گے۔ خود حماس کے رہنمائوں نے عالمی برادر اسلامی تنظیموں کو پرائیویٹلی بتایا۔
حماس نے ایک غیر عرب ملک سے معاملات سیٹ کر رکھے ہیں۔ اس کی قیادت فائدے میں ہے لیکن اس نے یہ فائدہ اور اسرائیلیوں کو ڈرا کر رکھنے کی کامیابی فلسطینی عوام کی بہت بڑی قیمت ادا کر کے حاصل کی ہے۔ شہدا کی اصل تعداد نہ بتانے کی وجہ فلسطینیوں کا مورال بلند رکھنا تھا۔ اس بار ایک اور اتنی بات یہ ہوئی کہ عرب ممالک میں فلسطینیوں سے ہمدردی پہلے سے زیادہ بڑھی۔ پچھلی بار غزہ پر حملے میں ہزار کے لگ بھگ لوگ شہید ہوئے تھے۔ اس بار ہمدردی کی لہر زیادہ رہی۔ اس بار عالم اسلام میں مظاہرے بھی زیادہ ہوئے۔ پاکستان کی حد تک فلسطین کاز کو فائدہ یہ ہوا کہ اسرائیل کے حامیوں کا منہ بند ہو گیا، جو حیلے بہانے ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر اسرائیل کی وکالت کا فریضہ ایمانداری سے ادا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ایڈوانچر بھی فی الوقت ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ گزشتہ کالم میں ایک ویڈیو کا ذکر ہوا تھا جس میں ایک بچی بمباری کے ڈر سے تکیے میں بار بار چھپنے کی کوشش کرتی ہے اور بابا، بابا پکارتی ہے۔ کالم میں دو بچوں کا ذکر تھا، دراصل تین بچیاں تھیں۔ والد نے یہ ویڈیو اپ لوڈ کر دی اور اس سے اگلے روز اگلی بمباری میں شہید ہو گیا۔ بچیاں اکیلی رہ گئیں۔ پتہ نہیں، مزید بمباری سے بچ نکلیں یا شہید ہو گئیں۔ زندہ ہیں تو سوچتی ہوں گی، اب کے بمباری ہوئی تو کسے بابا، بابا کہہ کر پکاریں گی۔ اب تو صرف تکیے کا سہارا رہ گیا۔
٭کچھ دنوں سے راولپنڈی کے رنگ روڈ سکینڈل کا بہت چرچا ہے۔ پہلے بتایا گیا کہ یہ 25ارب روپے کا گھپلا ہے، پھر یہ رقم 60ارب تک پہنچ گئی۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو گھپلے کی رقم کا تخمینہ 120ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ 120ارب یعنی ایک کھرب 20ارب۔ پنجاب کی مشیر اطلاعات نے اس "بحران" کو بہرحال حل کر دیا، جو ان کی بے پایاں صلاحیت کا ادنیٰ سا نمونہ ہے۔ فرمایا کہ رنگ روڈ سکینڈل کے ڈانڈے شہباز شریف سے ملتے ہیں۔ دیکھیے کتنی آسانی سے انہوں نے حکومت کو اس بحران سے مکھن سے بال کی طرح نکال لیا۔ ایک اور سکینڈل سر اٹھا رہا ہے آئی ایم ایف نے کورونا فنڈ میں بارہ کھرب کی رقم دی، اس کے بارے میں گڑ بڑ گھوٹالے پر غل غپاڑہ سا ہو رہا ہے۔ فردوس عاشق اعوان سے امید ہے، اس بحران کو بھی حل کر دیں گی۔ یہ بیان دے کر کہ کورونا فنڈ سکینڈل کے ڈانڈے مریم نواز شریف سے ملتے ہیں۔
٭سائنس فکشن میں ایک پسندیدہ موضوع ٹائم مشین ہے۔ یعنی ایسی مشین جو آپ کو ماضی یا مستقبل میں لے جاتی ہے، بظاہر نام سائنس کا ہے لیکن اصل میں سائنس کے ساتھ ایک طرح کی دل لگی ہے۔ یہ مشین والا تصور بوڑھوں کو خاص طور پر پسند ہے۔ وہ پھر سے بچپن کے دور میں جا سکتے ہیں، ازسر نوجوانی کے مزے لے سکتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ سائنس نہیں سائنس فکشن ہے جس کا سائنس سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا امریکہ کا انصاف سے۔ بہرحال، یہ ٹائم مشین والا تصور تب کچھ کچھ سچ لگنے لگا جب یہ خبر آئی کہ وزیر اعظم نے پشاور میں مزدوروں کے دو ہزار سے زیادہ رہائشی فلیٹس پر مبنی لیبر کالونی کا افتتاح کر دیا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ یہ کالونی "نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم" کے تحت بنائی گئی ہے یہ خوشی بھی ظاہر کی گئی کہ پی ٹی آئی نے مزدوروں سے کیا گیا ایک وعدہ پورا کر دیا(ایک کے بعد "اور" کا لفظ لگانا بھول گئے)تحقیقات سے پتہ چلا کہ منصوبے کی تعمیر سال 2011ء کے مہینے اپریل میں شروع ہوئی تھی۔
منصوبہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بنایا تھا اور 2013ء میں پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر شیر اعظم نے اس کا افتتاح بھی کر دیا تھا۔ بعدازاں اس کی توسیع ہوئی جس کا زیادہ تر کام 2018ء تک مکمل ہو گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے پھر سے افتتاح کیا اور پرانی تختیاں ہٹا کر اپنی لگا دیں۔ کہیے، تحریک اصناف نے ٹائم مشین کا کیسے انوکھے بلکہ اچھوتے انداز میں استعمال کیا۔ روایتی ٹائم مشین کہانیوں اور فلموں میں پرانی تختیاں ہٹا کر نئی لگانے کا (تصور 2008کے بعد میاں شہباز شریف نے ایجاد کیا تھا جب چوہدری پرویز الہی کی تختیوں پر اپنے نام کی تختیاں لگانا شروع کی تھیں)تصور خاصہ پرانا ہے۔ یہ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ وقت میں یہ سفر بیک ٹو پاسٹ تھا یا بیک ٹو فیوچر!سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے ٹائم مشین کا استعمال زیادہ کیا تھا یا ن لیگ نے؟