وزیر اعظم لاہور تشریف لائے اور پنجاب کابینہ کے ارکان کی سست کارکردگی پر خاصا غصہ نکالا۔ فرمایا اپوزیشن پر یلغار کیوں نہیں کر رہے۔ صرف ایک وزیر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ ایک وزیر سے ان کی مراد فیاض چوہان سے تھی۔ انہوں نے ان موصوف کی کارکردگی کی تحسین کی اور دیگر وزیروں کو ان جیسا بننے کو کہا۔ عرض ہے کہ ان جیسا کوئی اور کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک ارب کی آبادی میں ایک صدی کے دوران ایسا بیٹا ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم فی الحال انہی سے گزارا کریں۔ ہاں ان جیسی کارکردگی اور کوئی اگرچہ بالکل نہیں دکھا سکتا لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی اور جوہر قابل ہے ہی نہیں۔ ان سے کم لیکن اچھی کارکردگی والے اور بھی کئی ہیں۔ قبلہ شیخ صاحب اگرچہ چوہان صاحب کے مقابلے کے نہیں پھر بھی بلاناغہ شعلہ بار کارکردگی دن میں کئی کئی بار دکھایا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے منہ سے اب ٹھنڈی آگ نکلتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ عشق کی آگ اندھیر ہے والا معاملہ نہیں، آگ تو ہے بس ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ پھر مراد سعید ہیں۔ ان کا توپ خانہ ہر روز تو نہیں، ڈیکلی گولہ باری البتہ کرتا ہے۔ گولے البتہ بارودی مسالے کی کمی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پھر علی زیدی ہیں، عامر لیاقت ہیں اور کئی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک کے حساب سے گلفشاں اور گل بار۔ دوسرے وزیروں پر"گولہ بار" ہونے کے لئے دبائو مت ڈالئے، ایسا نہ ہو اپنی ہی صفیں الٹ ڈالیں۔
یہ جو نام لئے ہیں، سب وفاق کے ہیں۔ پنجاب میں اعجاز چودھری اور محمود الرشید بھی کم۔ خوش گفتار نہیں۔ البتہ ہر روز میدان کارزار نہیں سجاتے۔ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو شاید ایک کے تین ہو جائیں۔ چوہان صاحب کی برابری البتہ پھر بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن چلئے ایک سے تین بھلے والی بات تو ہو ہی جائے گی۔ چوہان صاحب سے کسی قدر ہم پلہ ایک شہباز گل صاحب ہوتے تھے لیکن انہیں پنجاب سے اٹھا کر وفاق میں لے گئے۔ پنجاب کا مورچہ کمزور پڑ رہا ہے تو واپس بھیجوا دیجیے۔ وفاق میں بہت سے صاحب بصیرت موجود ہیں اور وہ بھی جو جب بھی سچ بولتے ہیں۔ ایک شہزاد اکبر بھی خوب ہیں لیکن ان کا ہتھ زیادہ تر شہباز شریف پر رواں ہے۔
وزیر اعظم اس سے پہلے بھی وفاقی اور صوبائی وزیروں کو کارکردگی بہتر بنانے کا مشورہ دے چکے ہیں چنانچہ یہ تو واضح ہو گیا کہ کارکردگی سے مراد کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کرکردگی کے ثمرات اتنے مرجھائے ہوئے کیوں نکلتے ہیں۔ بارود خانے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ بھارت کی ایجنٹی کا ہتھیار اب کھلونا بن گیا۔ بازیچہ اطفان کی نذر کر دیے۔ کرپشن والی "بے بی ڈال" کا حلیہ ایسا ہو گیا کہ دیکھتے ہی مسکراہٹ آ جاتی ہے اور اگر بولے تو ہنسی نکل جاتی ہے۔ اسے بھی ڈسٹ بن میں ڈالئے۔ کوئی اور ہتھیار سازی کرنا ہوگی ورنہ بیچ میدان میں ہی کارگزاروں کی ساری کھیپ، کھیت رہے گی۔
سنا ہے، وزیر اعظم نے کارکردگی بڑھانے کا آغاز خود اپنی ذات سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور خود برطانیہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ نواز شریف کو پکڑ کر وطن واپس لائیں اور کسی عام سی جیل میں بند کر دیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ کورونا فنڈ میں جو باہر سے بھاری رقوم آئی تھیں، لوگ وہ بھی کھا گئے۔ حکومتی لوگ بھی خوب ترکیب ہے۔ لیکن "بھی" کا استعمال اور بھی قابل داد۔ ازحد بلیغ اور کمال کی وضاحت۔ سراج الحق اور ان کی جماعت ان دنوں مہنگائی کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ اچھا ہو گا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر احتجاج کو بلند آہنگ کرتے کہ عزور بڑھتا ہے صدائیں جو صدائوں میں ملیں فی الحال تو مہنگائی فی گھنٹہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نے مہنگائی کے خلاف اب تک اڑھائی درجن سے زیادہ نوٹس لئے ہیں اور ہر نوٹس کے بعد مہنگائی کی آگ اور بھڑک اٹھتی ہے۔ ایک تجربہ کر دیکھیں۔ وزیر اعظم اعلان کریں کہ انہوں نے اب تک جتنے نوٹس لئے ہیں، وہ سب کے سب واپس لے رہے ہیں۔ شاید مہنگائی میں کچھ کمی ہو جائے۔ یعنی ٹماٹر ایک سو اسی روپے کلو سے کم ہو کر ایک سو اٹھہتر روپے کا ہو جائے۔ بجلی کا بل دس ہزار کے بجائے نو ہزار نو سو ننانوے کا آئے۔ تجربہ کر لینے میں کیا ہرج ہے۔
کارکردگی ایک تو وہ ہے جس کا شروع میں ذکر ہوا، اس کے علاوہ ایک اور کارکردگی بھی ہے اور اس کا بھی خوب زور ہے۔ اول الذکر حسن کارکردگی ہے تو یہ موخرالذکر کمال کارکردگی۔ اسے سمجھنے کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے۔ مثلاً پہلے گندم لاپتہ کی گئی، پھر اسے طورخم کے پار سمگل کر دیا گیا۔ اسی دوران احباب نے خوب ثواب کمایا۔ پھر گندم طورخم سے اس طرف درآمد کی گئی اور احباب نے پھر ثواب کمایا۔ یوں دونوں ثواب مل کر ثواب داریں ہو گئے۔ اسی طرح کا کمال کارکردگی دوائوں وغیرہ متعدد شعبوں میں بھی دکھایا گیا اور ثواب کمایا گیا۔
وزیر اعظم نے فرمایا کہ کپاس، کپڑوں اور شرٹس سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ ترقی تعلیم پر خرچ کرنے سے ہوتی ہے۔ پتہ نہیں، کس نے تعلیمی بجٹ صفر کے برابر کر دیا۔ چلئے، چھوڑیے۔ اس بات کا تفصیل سے ذکر نئے سال میں کریں گے۔ فی الوقت یہ بتانا ہے کہ اہل نظر اس بیان کو خطرے کی گھنٹی سمجھیں۔ بھوکی ننگی قوم کا محاورہ اب بامعنے ہوا چاہتا ہے۔ یا دھوکا، پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی ایک وزیر نے پریس ٹاک میں قوم کو دو کے بجائے ایک روٹی کھانے کا بروقت مشورہ دیا تھا، پھر خود موصوف"ہرنِ مسلم کھانے تشریف لے گئے تھے۔ یہ خبر تو کاٹن والے دے ہی چکے کہ حکومت کی کامیاب پالیسی کی بدولت اس برس پھٹی کی پیداوار میں لگ بھگ 38فیصد "کمی" کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی شاعر صاحب فرما گئے کہ ؎تن کی عریانی سے بڑھ کر نہیں کوئی لباسیہ وہ جامہ ہے نہیں جس کا کوئی الٹا سیدھا