اسلام آباد کا چڑیا گھر بالآخر بند ہو گیا ہے۔ یہ محض قید خانہ نہیں، جانوروں کا مستقبل بھی تھا۔ باقی چڑیا گھر بھی بند ہونے چاہئیں۔ پاکستان کی ایک مشہور اداکارہ نے اپنے بیان میں تمام چڑیا گھر بند کرنے کامطالبہ کیا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ کسی سیلبیریٹی نے ایسا مطالبہ کیا اور حیرت کی بات ہے کہ اصل میں یہ مطالبہ جن کی طرف سے آنا چاہیے تھا وہ اس مسئلے سے قطعی ناواقف ہیں۔ مراد مذہبی رہنمائوں سے ہے۔ مسلمان، ہندو، مسیحی۔ نام مذاہب حیوانات پر ظلم کے مخالف ہیں اور گاندھی جی نے کہا تھا کسی بھی انسانی معاشرے کی عظمت جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ جانوروں سے کیا سلوک کرتا ہے۔ سدھارتھ توم بدھا نے کہا تھا، شریف اردو معزز وہی انسان ہے جو جانوروں پر رحم کرے، ان پر ترس کھائے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق بڑے زندہ دل اور جانوروں سے پیار کرتے تھے لیکن ایک بار انہوں نے جنگل سے شیر کا بچہ پکڑا اور پنجرے میں بند کر کے گھر میں رکھ لیا۔ ظاہرہے یہ زندہ دلی ہے نہ جانوروں سے پیار۔ ستم ایک اور بھی ہوا۔ انہوں نے ایک کتا پالا۔ وہ غلطی سے پنجرہ کے پاس چلا گیا شیر کے بچے نے جو قدرے بڑا ہو گیا تھا اسے پنجا مارا۔ کتا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ اس گناہ کی پگڑی کس کے سر رہی؟ ظاہر ہے مولوی صاحب بھی ذمہ دار تھے۔ پھر انہی مولوی صاحب نے ایک اور کتا پالا۔ اس سے بہت پیار ہو گیا۔ کتا بھی ان پر جان دیتا تھا۔ ایک دن کام کے دوران کتے کی مداخلت پر ناراض ہو گئے اور ملازم سے کہا اسے اٹھا کر لے جائو کہیں اور چھوڑ آئو۔ ملازم نے ایسا ہی کیا۔ گھر میں لاڈ پیار سے پالتو کتا انسان کا محتاج ہو جاتا ہے، بے چارہ سڑکوں پر بھٹکتا رہا، بھوکا پیاسا ہی مر گیا۔ مولوی صاحب حیدر آباد میں رہتے تھے تو مشہور ادیب ماہر تعلیم اختر حسین رائے پوری بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ انہوں نے ایک پنجرے میں تختے لگا کر چار خانے بنا دیئے اور خوبصورت پرندے ان میں قید کرڈالے۔ یہ کہتے ہوئے کہ مجھے پرندوں سے پیار ہے۔ میں جس کو پیار کرتا ہوں، اسی کو قید کرتا ہوں۔ اختر حسین رائے پوری بہت ہمدرد انسان تھے اور انسانیت پرست تھے لیکن اس واقعے کو کیا کہئے۔ بہت برسوں بعد البتہ انہوں نے پنجرے کھول کر چڑیائیں آزاد کردیں۔ ظاہر ہے یہ اور ہوں گی پہلی والی تو عمر قید پوری کر کے مر گئی ہوں گی۔
چڑیا گھر تو جانوروں پر ظلم کا محض ایک اڈہ ہیں اور قدرے محدود دائرے میں لیکن اس سے کئی سو گنا بڑے ظلم کے اڈے بھی ہیں۔ مثلاً فرکے کارخانے۔ فرکے لباس پہننا شیطانیت ہے۔ اسلام میں سختی سے منع ہے۔ درندوں کی کھال والی احادیث دیکھ لیجئے اور اس کارپوریٹ دور میں تو یہ ظلم اپنی شدت میں اور بھی بڑھ گیا ہے۔ لومڑی، بلی، بالوں والا کتا، نیولا، سموری نیولا، خرگوش، راکون اور بعض دوسرے جانور ہزاروں کے حساب سے اتنے ننگ پنجروں میں بند رکھے جاتے ہیں جن میں وہ حرکت بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں دانہ پانی بھی ٹھیک نہیں ملتا۔ جب ان کی فرمطلوبہ معیار کو پہنچ جاتی ہے تو انہیں گیس چیمبرز میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ گیس چیمبر میں یہ جانور 20 سے 25 منٹ تک بری طرح تڑپتے ہیں۔ اس اذیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پھر ان کی کھال اتاری جاتی ہے۔ چین، کوریا، ویتنام، انڈونیشیا وغیرہ میں گیس چیمبرز استعمال نہیں کئے جاتے، زندہ جانور رسی سے لٹکا دیئے جاتے ہیں اور کھال اتاری جاتی ہے، کھال اتارنے کا حل فی جانور دس بارہ منٹ ہے۔ یہ ناقابل بیان اذیت برداشت کرنے کے بعد ان بے کھال جانوروں کو ایک طرف پھینک دیا جاتا ہے۔ بے کھال کے یہ جانور اسطاً نصف گھنٹہ تڑپتے ہیں اور کوئی صاحب احساس اس تڑپنے کی وڈیو ایک منٹ سے زیادہ دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ اٹلی سے جتنے جوتے آتے ہیں، وہ سب کتے کی کھال سے بنتے ہیں اور یہ کھالیں اٹلی، چین سے درآمد کرتا ہے۔ چین میں ہزاروں مقتل اس غرض سے رات دن کام کرتے ہیں۔ کتوں کی کھال اتاری جاتی ہے اور اعلیً کوالٹی کی کھال کے لیے زندہ کتے کو ابلتے پانی کے ڈرم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اٹلی میں پاپائے روم کا مقدس ہیڈ کوارٹر ہے، کبھی جوتا ساز فیکٹریوں کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔ صالح لوگ اپنے جانوروں کی ضرورت اور جان کا خیال رکھتے ہیں۔ (زبور۔ امثال 10-12)
بھارت کے بارے میں عالمی تاثر یہ بنا ہوا ہے کہ دنیا میں جانوروں پر سب سے کم ظلم یہیں ہوتا ہے۔ شاید یہاں آباد ہندو، بودھ اور جبین جانوروں کو مارنے کے خلاف ہیں لیکن ان ٹیزیز کو کیا کہئے گا جو پورے بھارت میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے مالک بالعموم ہندو ہیں۔ گائے جب تک دودھ دیتی ہے، عام ہندو کے لیے وہ ماتا ہے لیکن جب اس کا دودھ سوکھ جاتا ہے تو وہ اسے بوچڑ یا کانجی خانے میں جمع کرادیتا ہے اور وہ اسے ٹیزیز والوں کو دے آتے ہیں۔ یہاں وہ بھوکی پیاسی رہتی ہیں، یہاں تک ہان کی ذبح ہونے کی باری آ جائے یا خود ہی مر جائیں، ان کا چمڑا درکار ہے، وہ تو مل ہی جاتا ہے۔ چین کی بھارت سے تین سرحدیں ملتی ہیں اور یہاں بہت سے ریکٹ ہیں جو سب کے سب ہندوئوں کے ہیں۔ یہ ریکٹ جانوروں کو پکڑ کر یا مار کر چین والوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ہاتھی دیوتا ہے (کنیش مہاراج، گنپتی دیوا) لیکن وہ کھیتوں میں گھس جائے تو ہندو اسے زندہ جلا دیتے ہیں۔