بھئی پچھلا ہفتہ تو مزے دار خبروں سے بھر پور رہا۔ براڈ شیٹ نامی فرم نے تو طلسم ہوشربا کے دروازے ہی کھول دیے۔ لیکن جناب جو مزے دار خبر پنجاب کے دو وزیروں نے پریس کانفرنس کر کے سنائی، اس کا تو جواب ہی نہیں۔ پس منظر اس پریس کانفرنس کا وہ سلسلہ ہائے کوہ تھے جو عثمان بزدار کے پنجاب کا مدار المہار بننے کے بعد سے نمودار ہونے شروع ہوئے اور پھر نمودار ہوتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ لاہور پورا کوہستان بن گیا، کوہستانِ کوڑالیہ بروزن ہمالیہ۔ اس پر میڈیا میں خوف چیخم دھاڑ مچی لیکن حکومت نے ذرا بھی پروا نہ کی اور کوڑے کرکٹ کے یہ پہاڑ لاہور کا جغرافیہ تبدیل کرتے رہے(تبدیلی آئی رے) جب معاملہ زیادہ بڑھا تو پھر ان دو وزیروں نے پریس کانفرنس کی۔ ان میں ایک تو وزیر صاحب تھے، دوسری وزیر صاحبہ۔ انہوں نے انکشاف فرمایا کہ ان پہاڑوں کی ذمہ دار سابق حکومت ہے۔ سابق دور میں تو لاہور اتنا صاف ستھرا تھا کہ کراچی والے رشک کرتے تھے۔ لوگوں نے چنانچہ حیرت سے ان دونوں وزیروں کا انکشاف سنا اور پھر اس پر ایسے تبصرے کئے کہ یہ وزیر سن پاتے تو مارے حیرت کے سکتے میں چلی جاتے۔ بہرحال حیرت کی اتنی زیادہ بات بھی نہیں۔ اس تبدیلی سرکار کا طرّہ امتیاز ایک یہ بھی ہے کہ ہر نازل کراہ بلا کا بوجھ سابق حکومت پر ڈال دو۔ اتنے زیادہ، اتنے مہیب قرضے تبدیلی سرکار نے لئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ پوچھا کہ اتنے قرضے کیوں لئے تو شان بے نیازی سے فرما دیا، ماضی کی حکومت ذمہ دار ہے۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ ہم الٹے بات الٹی یار الٹا تو وہ بھی ماضی کے حکمرانوں کے بارے میں کہا تھا، حاشا و کلاّ موجودہ حکمرانوں پر تو ہرگز نہیں۔
کوڑے کرکٹ کی بات تو ایک طرف رہی۔ آٹے کی قیمت بڑھی تو دہائی مچی۔ اور جب دہائی اچھی طرح مچ چکی تو خاں صاحب نے فرما دیا، یہ مافیا ہے جس نے آٹا مہنگا کیا۔ مافیا سے ان کی مراد شریف خاندان ہے لوگوں کو بات سمجھنے میں خاصی دقت ہوئی اس لئے کہ گندم در آمد کرنے اور ملوں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ تو کابینہ کے اجلاس میں خود وزیر اعظم نے کیا تھا اور پھر اخبارات نے رپورٹ بھی چھاپی تھی۔ بہرحال ماننے والوں نے مان لیا کہ گندم دگنی سے بھی زیادہ مہنگی کرنے کی ذمہ دار بھی سابق حکومت ہے۔ حیرت کی بات ہے، اشیا ضروریہ بھی دوگنے سے زیادہ مہنگی ہو گیئں۔ اس کی ذمہ داری ابھی تک سابق حکومت پر نہیں ڈالی گئی۔ اسی طرح سے دوائوں کے نرخ 5گنا ہو گئے اس کا ذمہ دار بھی اصولی طور پر شریف خاندان ہی کو قرار دینا چاہیے لیکن یہ فریضہ بھی ابھی تک ادا نہیں کیا گیا۔
دوسری مزے دار خبر عوام کو ایک مہینے میں پٹرول کی قیمتوں میں دو بار ریلیف دینا ہے۔ اس بار فی لٹر دس روپے کا ریلیف دیا گیا۔ اوگرا نے تیرہ چودہ روپے مہنگا کرنے کی سفارش کی تھی لیکن غریبوں کے لئے ازحد زیادہ درد دل رکھنے والے وزیر اعظم نے یہ سمری مسترد کر دی اور محض تین چار روپے کا اضافہ کر کے دس روپے کا ریلیف دے دیا۔ بعض وزیروں اور چند ایک ٹی وی چینلز نے اس ریلیف کی تعریف کے خوب ڈنکے بجائے۔ عوام اس ریلیف پر بہت خوش ہیں لیکن انہیں زیادہ ریلیف چاہیے جو وزیر اعظم آسانی سے دے سکتے ہیں۔ چلئے، اگلے پندرھواڑے میں وزیر اعظم سے توقع رکھ لی جائے کہ وہ آٹھ دس روپے کے معمولی ریلیف کے بجائے پورے سو روپے فی لٹر کا ریلیف دیں۔ محض اتنا کرنا پڑے گا کہ اوگرا کو حکم دیا جائے وہ پٹرول کے نرخوں میں ایک سو دس روپے اضافے کی سفارش کرے۔ وزیر اعظم یہ سمری مسترد کر دیں اور محض دس روپے کا اضافہ کریں۔ یوں عوام کو فی لٹر سو روپے کا ریلیف ملے گا تو وہ آستینیں چڑھا چڑھا کر وزیر اعظم کو دعائیں دیں گے۔ اس ریلیف کے لئے اس لطیفے سے مدد لی جا سکتی ہے، جو کسی دور میں خوب "وائرل" ہوا تھا، (اگرچہ تب موبائل فون نہیں ہوا کرتا تھا) لطیفہ کچھ یوں تھا کہ ایک صاحب نے گھر آ کر بیگم کو بتایا آج میں نے دس روپے کی بچت کی۔ کیسے؟ بیگم نے پوچھا۔ بتایا کہ میں بس میں بیٹھنے کے بجائے اس کے پیچھے دوڑتا دوڑتا گھر آ گیا، یوں ٹکٹ کے دس روپے بچا لئے۔ بیگم نے کہا، رہے نہ بھوندو کے بھوندو۔ دوڑنا تھا تو رکشے کے پیچھے دوڑتے، یوں پچاس روپے کا ریلیف مل جاتا۔
خیر، ایک معاصر نے آج ہی دوسری شہ سرخی کے ساتھ یہ خبر چھاپی ہے کہ حکومت نے صرف چھ ماہ کے اندر تیل مہنگا کر کے عوام کی جیب سے چھ کھرب نکلوا لئے۔ یعنی چھ کھرب کی خالص آمدن۔ عالمی منڈی میں تو نرخ نہیں بڑھ رہے، یہاں ہر مہینے بلکہ اب تو مہینے میں دو بار بڑھ رہے ہیں۔ چھ کھرب کی آمدن پر حکومت کو مبارک ہو۔ یہ چھ ارب وہ کہاں خرچ کرے گی؟ یہ سوال پوچھنا البتہ مضر صحت ہو سکتا ہے۔ ہاں چھ چھ لگژری گاڑیاں بھی صرف چند وزیروں کے پاس ہیں، باقی رہتے ہیں۔
ایک انصاف پرست صحافی سے ایک بار پوچھا کہ ماضی کی حکومت ہر دوسرے روز کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح کرتی تھی، اب ایسا کیوں نہیں ہو رہا۔ ایسی کوئی خبر پڑھنے سننے کو کیوں نہیں ملتی۔ صحافی نے کہا، بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے، یہ دیکھو، پانچ منصوبوں کی افتتاحی تقریبات کی تصویریں تو میرے موبائل میں موجود ہیں۔ پھر کھول کر وہ تصویریں دکھائیں۔ ایک تصویر میں سپیکر صاحب بمعہ دو وزیروں کے کسی نلکے کا افتتاح کر رہے ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک مہمان پبلک لیٹرین کی ڈوری کاٹ رہی ہے۔ باقی دو تصویروں میں چلئے چھوڑیے۔ ہمیں یقین ہوا، ہم کو اعتبار آیا۔ بزدار نے درست فرمایا کہ تعمیر و ترقی کا دور شروع ہو چکا ہے۔