وزیر اعظم نے عوام کو کیا ہی مبنی برحقیقت نصیحت ارشاد فرمائی کہ وہ موجودہ مشکل حالات میں صبر سے کام لیں۔ مشکل حالات میں جان لیوا اور خودکشی افزا مہنگائی اور دیگر ایسے ہی مشکل مقامات شامل ہیں۔ وزیر اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام پہلے ہی صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور محض صبر ہی نہیں، ضبط سے بھی کام لے رہے ہیں اور ضبط وہ ڈوری ہے جس کی کوئی ضمانت نہیں، کب اور کیسے ٹوٹ جائے، ایک تڑاختے سے وزیر اعظم نے یہ نصیحت پولیس کی تقریب سے خطاب کے دوران کہی۔ تقریب گویا سرکاری ملازموں کی تھی لیکن شاید وزیر اعظم نے سمجھا کہ یہ ان کی جماعت کے لئے منعقد ہونے والا جلسہ ہے چنانچہ وہ اپوزیشن پر چڑھ دوڑے اورفرمایا، اپوزیشن لیڈر عبرت کا نشان بن گئے ہیں، ان پر اللہ کا عذاب آیا ہوا ہے۔ عذاب یا آزمائش؟ طاہر اشرفی سے تخلیے میں ان کا فرق ہی پوچھ لیتے۔ خدا کا عذاب جس پر ہوتا ہے اور جو نشان عبرت ہوا کرتے ہیں، عوام ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ عوام ہیں یا نہیں، وزیر اعظم کو اچھی طرح پتہ ہے لیکن تجا ہل عارفانہ کی ادا بھی کیا خوب ہے۔ عبرت کا نشان تھے تو ایوب خان، یحییٰ خاں، ضیاء الحق خان اور مشرف۔ اس خطاب سے پہلے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے اسی قسم کا مشورہ دیا تھا۔ میزبان کے سوال پر کہا کہ جب تک ملک دولتمند نہیں ہو جاتا عوام کیا کریں، خودکشیاں؟ وزیر اعظم نے جواب دینے کے بجائے الٹا میزبان سے پوچھ لیا کہ میں کیا کروں پھر۔ سوال تھا کہ مصرعہ اور مصرعہ بھی وہ کہ حاصل غزل بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اڑھائی سال سے چلتے مشاعرے کا حاصل بھی یہی مصرعہ ہے اور عنوان بھی۔
مشاعرے سے خیال موسیقی کی طرف چلا گیا۔ سریلی آواز اور دھن کی مدھرتا سب کو بھلی لگتی ہے۔ بڑے بڑے زاہدان خشک کو جھومتے دیکھا ہے۔ ایک دور تھا جب گلی محلّے چوک بازار میں ہر طرف ریڈیو اور گراموفون بجا کرتے تھے۔ گھر سے مسجد تک جاتے جاتے ایک فلمی گیت حفظ ہو جاتا تھا اور دفتر پہنچتے پہنچتے دس گیت ازبر ہو جا تے تھے۔ لیکن عشرہ ڈیڑھ پہلے ہر قسم کی سرعام ریکارڈنگ پر پابندی لگ گئی اور فضا میں صرف ٹریفک کا بے سرا شور رہ گیا۔ تبدیلی آئی تو اہل ذوق کی بھی بن آئی اور نہیں تو اتنا کیا کم ہے کہ جب بھی ٹی وی کھولو، کوئی نہ کوئی ملکہ ترنم اور شہنشاہ غزل سربکھیر رہا ہوتا ہے۔ جی، میری مراد ملکہ ترنم سے ایک خاتون وزیر ہیں اور شہنشاہ غزل کے باب میں البتہ اختلاف ہے۔ کہ تین وزراء میں سے کونسا ایک ہے، نیز کئی اور بھی ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک۔ صبح آنکھ کھلتے ہی ٹی وی دیکھنے، دوپہر کے قیلولے سے پہلے ٹی وی آن کر لیجیے یا رات گئے، الوداعی نظر ڈال لیجیے، ایک سے ایک طوطی خوش مقال، جنت نگاہ "ریلیف" دیتا ہوا نظر آئے گا۔ سر البتہ محدود ہیں۔ بلکہ ایک ہی سرگم ہے۔ این آر او نہیں دیں گے۔ پریس کانفرنس میں فرمائش کسی اور گیت کی کیجیے، یہی ٹھمری سنائی دے گی۔ سوال پوچھیئے حضور مہنگائی نے دم نکال دیا، جواب ملے گا کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ عرض کیجیے سرکار انڈا 30روپے کا ہو گیا، جواب ملے گا این آر او نہیں ملے گا۔ سوال کیجیے مسئلہ کشمیر کا کیا بنا، جواب میں بتایا جائے گا کہ راجکماری کا جلسہ فلاپ ہو گیا۔ جلسے سے مراد اپوزیشن کا ہر جلسہ ہے۔ وہ بھی جو ہو گئے اور وہ بھی جو ہونے ہیں۔ اس لامتناہی محفل موسیقی کو جلترنگ کا نام دے لیجیے یا لوہ ترنگ کا۔ آپ کی مرضی ہے ؎
باغ میں چل کے سنیں لوہ ترنگ بلبل کے
ضرب منقار سے بجتے ہیں کٹورے گل کے
باغ جانے کی ضرورت ہی نہیں، بہاروں کے قافلے آپ کے کانوں سے کٹورے بجانے کو ٹی وی کے راستے آپ کے گھر میں اتر آئے ہیں۔
حکمران جماعت کے سینیٹر فیصل جاوید نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم جو بھی کر رہے ہیں، قوم ہی کے لئے کر رہے ہیں۔ بتانا ضروری نہیں تھا، قوم پہلے ہی جانتی ہے۔ جو کر رہے ہیں وہ بھی اور جس کے لئے کر رہے ہیں، اسے(یاا نہیں) بھی بہرحال "جو بھی" کے ضمن میں کچھ زیادہ نہیں ہے۔ چند ہی آئٹم ہیں مثلاً سرفہرست مہنگائی اورقوم پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں تو بھی قوم ہی کے لئے۔ اپنی اے ٹی ایم مشینوں کو شکر یعنی کہ چینی، آٹے سمیت، دوائوں، پٹرول کی مد میں اربوں کھربوں کمانے کا جو موقع دے رہے ہیں تو وہ بھی قوم کے لئے۔ کل ملا کے خلاصہ یہ کہ جو بھی یعنی کہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں قوم ہی کے لئے کر رہے ہیں چنانچہ قوم نچنت رہے۔
جی ڈی اے کے وفد کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات دلچسپ ہے اور یہ پیغام کہ گرینڈ نیشنل الائنس بننا چاہیے۔ خدارا استعفے مت دیں ورنہ (ارمانوں کے تاج محل کو) آگ لگ جائے گی۔ جی ڈی اے سیاسی جماعت نہیں ہے، ریاست کا ایک مقامی پراجیکٹ ہے، جس طرح مقامی پراجیکٹ متحدہ ہے، حقیقی ہے، پاک سرزمین شادباد پارٹی ہے اور جس طرح کا قومی پراجیکٹ خود پی ٹی آئی ہے۔ چنانچہ اس ملاقات کو کیا معنے دیے جائیں؟ ۔ حکومت کی اطلاع ہے کہ استعفے نہیں آ رہے، پھر ریاستی پراجیکٹ والے اپوزیشن والوں کے پاس کیوں آ رہے ہیں؟ کسی نئے پراجیکٹ کی آمد آمد ہے شاید؟ ۔ پیغام رسانی کی ذمہ داری محمد علی درانی صاحب کے سپرد تھی۔ آپ عرصہ دراز سے بذات خود ریاستی پراجیکٹ ہیں۔۔ 12مئی کے کراچی والے واقعے پر جو بھنگڑا فرمایا گیا تھا، اس میں آپ بھی ہم رقص تھے۔ مشتری یعنی شہباز شریف ہوشیار باش۔