ہفتہ گزراں ورداں کی سب سے بڑی خبر ملتان کے جلسے کا ماجرا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی۔ خود وزیراعظم نے یہ خوش کن خبر سنائی اور اس کی تائید ریاستی بنک نے اپنی رپورٹ میں کی۔ دونوں پر اعتبار کیا جانا چاہیے اور ایسی رپورٹوں کو مسترد کردینا چاہیے جن میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی شرح ساڑھے نو نہیں، دس فیصد سے بھی زائد ہے اور کھانے پینے اور دوسری لازمی اشیاء کی مہنگائی سو فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یقین نہ ہو تو منڈی جا کر خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آٹھ سو روپے کلو والی ادرک سستی ہونے کے بعد محض سات سو پچانوے روپے کلو میں بک رہی ہے یعنی ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے۔ الحمدللہ۔
سچی بات یہ ہے کہ مہنگائی میں کمی کا جو سو فیصد بہتر ہدف طریقہ موجودہ حکومت نے اختیار کیا ہے، وہ صاف بتا رہا ہے کہ حکومت محض جینئس نہیں سپر جینئس بھی ہے۔ غور فرمائیے۔ دنیا میں ایک سے ایک ذہین فطین حکومت آئی لیکن مہنگائی کم کرنے کا جو نادر طریقہ ہماری حکومت نے دریافت کرکے نافذ کر دیا ہے وہ کسی کے احاطہ خیال میں بھی نہ آ سکا۔ دیکھئے، کتنا موثر اور یقینی طریقہ ہے۔ پہلے کسی شے کی قیمت سو روپے سے بڑھا کر تین سو روپے کردو، پھر اس میں پانچ یا دس روپے کی کمی کر کے اسے دو سو نوے یا دو سو پچانوے روپے کی کردو اور پھر ڈنڈورا پیٹ ڈالو کہ دیکھو، ہمارے اقدامات سے مہنگائی کم ہو گئی۔ امید ہے یہی طریقہ بیروزگاری کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر دو ہی دن گزرے، حکومت نے پاکستان سٹیل ملز سے 4544 ملازم برطرف کر کے بیروزگار کردیئے۔ یوں اس حکومت کے بیروزگار کردہ افراد کی تعدادچار ہزار پانچ سو چوالیس ہو گئی۔ اب حکومت کچھ دنوں بعد چاہے تو سٹیل ملز کے چوالیس افراد کو بحال کردے جس کے بعد ڈھنڈورا پیٹنے کا ایک سنہری بلکہ آہنی موقع مل جائے گا کہ دیکھو، ہم نے بیروزگاری میں کمی کردی۔ بیروزگاروں کی تعداد کم ہو گئی۔ حتمی فائدہ شبلی فراز کو ہوگا۔ انہیں ہر روز دو پریس کانفرنس کرنا ہوتی ہیں اور یوں وہ قلت ہائے مضامین کا شکار رہتے ہیں، مجبوراً ایک بار کی گئی بات کو بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ انہیں نیا موضوع ہاتھ آ جائے گا۔ فی الوقت تو بے چارے اک رنگ کا مضمون ہو تو سو ڈھنگ سے باندھوکی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ دو تین مہینے تو انہوں نے مسلم لیگ غدار ہے کے پر بہار مضمون سے کام چلایا، اب اس مضمون کے جملہ برگ و بار باد خزاں سے جھڑ چکے ہیں تو انہیں مضامین کی بھی ضرورت ہے۔
ایک خبر اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے بارے میں آئی ہے جس پر نجکاری کی برق گر پڑی ہے۔ یہ برق کس منصب دار نے گرائی ہے جو وزیراعظم کے ٹیلنٹڈ کزن بتائے جاتے ہیں۔ ایک شبینہ آرڈیننس کے تحت اس ہسپتال کی سرکاری حقیقت ختم کردی گئی اور اسے بورڈ آف گورنرز کے حوال کردیا گیا۔ سادہ معنوں میں اس کی نجکاری کردی گئی البتہ ذرا انوکھی قسم کی کہ خرچے تو سارے حکومتی خزانے سے ہوں گے۔ پلائو کوفتے بورڈ آف گورنرز کے احباب اڑائیں گے۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اس نجکاری کے خلاف مزاحمتی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ پختونخوا صوبے میں یہ پروگرام نافذ کر کے صحت کے سارے نظام کا بیڑا غرق اور پٹھہ بٹھا دیا گیا ہے۔ اقربا کے وارے نیارے ہو گئے جبکہ مریض رل گئے۔ رل کیا گئے، غریب مریضوں کا تو سرکاری ہسپتالوں میں داخلہ ہی بند ہو گیا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق پختونخوا کے محکمہ صحت کے ایک بڑے افسر نے جو پرویز خٹک کے قریبی بتائے جاتے ہیں اعتراف کیا کہ اس نظام نے پختونخوا میں ہسپتالوں اور صحت کے نظام کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ کمال بیڑا غرق کرنے میں نہیں ہے، اس میں ہے کہ بیڑا صحیح معنوں میں غرق ہو جائے گا۔ پروگرام توپنجاب سے بھی صحت کے نظام کو تڑی پار کرنے کا تھا لیکن کیا کیجئے کسی ناہنجار نے رٹ کردی اور معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
وزیراعظم نے آخر کار چودھری شجاعت سے مل ہی لیا۔ اس موقع پر انہوں نے سپیکر صاحب سے بھی ملاقات کرڈالی ہے۔ مقرب اخبار نویسوں کا دعویٰ ہے کہ دل سے ملے ہیں دل والا معاملہ ہوگیا۔ خیال تھا کہ وزیراعظم موصوف کو دیا گیا اعزاز واپس لینے کا اعلان کریں گے لیکن ابھی تک ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وزیراعظم فراخ دل واقع ہوئے ہیں، جو خطاب کسی کو دے دیا، بس دے دیا، واپس نہیں کیا کرتے۔ یہ ملاقات کے دو سال سے معرض التوا میں تھی۔ مقربین کالم اور تجزیہ نگار بتایا کرتے تھے کہ وزیراعظم کسی سے ویسے ملاقات نہیں کیا کرتے۔ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوتے۔ آپ یہی مقربین بتا رہے ہیں کہیں معمولی غلط فہمی تھی، دور ہو گئی، اتحادی جماعتوں میں ہاتھ ڈال کر مدت پوری کریں گے۔ بدخواہوں کو منہ کی کھانا پڑی ہے وغیرہ وغیرہ اور مزید وغیرہ۔ سنا ہے، یہ ملاقات اس فون کے بعد کرنا پڑی جو نوازشریف نے شجاعت کو کیا تھا۔ یعنی "نتیجے" کے طور پر۔ واللہ اعلم۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرانے کے لیے بجلی مزید مہنگی کرنا پڑی تو ضرور کریں گے۔ یہ بات وفاقی وزیر حماد اظہر نے میڈیا کو بتائی۔ اس خبر کی سرخی کچھ یوں ہونی چاہیے تھی کہ نیکی اور پوچھ پوچھ لگ بھگ دو ماہ ہوتے ہیں جب وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ اب بجلی سستی ہونا شروع ہو گی۔ اس پر مقربین کالم نویسوں نے پیشگی مبارکباد دی، کالم بھی لکھ ڈالے تھے، تب سے اب تک بجلی چار بار مہنگی ہو چکی ہے اور یہ نیکی اور پوچھ پوچھ والی مہنگائی پانچواں اضافہ ہوگی، عوام کو پیشگی مبارک۔