ہر خبر کا ردعمل دوسری خبر ہوتا ہے۔ چنانچہ خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے اپنے معاہدے پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی طرف نئے (تاحال) وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا۔ چنانچہ ردّعمل کے طور پر "خبر آئی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں 93پیسے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ویسے بدخواہ عناصر تو یہی کہیں گے کہ آئی ایم ایف مان جاتا تب بھی بجلی کے نرخ بڑھنے ہی تھے کہ حکومت کو بجلی مہنگی کر کے مزا لینے کی عادت پڑ گئی ہے اور یہ مزا کم بخت ایسی چیز ہے کہ ہر نشے سے بڑھ کر ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اڑھائی برس کے دوران حکومت یہ اور اسی قسم کے دوسرے مزے کتنی بار لے چکی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ ایک بیان میں کسی نے یہ دلچسپ تبصرہ ابھی چند ہی روز پہلے کیا تھا کہ مہنگائی اب سال کے حساب سے نہ مہینے کے اور نہ ہفتے یا دنوں کے بلکہ فی گھنٹہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے اور یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت ہر گھنٹے مزہ لے رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت اس مزے کا سہرا مافیا کے سر پر ڈال دیتی ہے اور یہ پھر ایک اور الگ بات ہے کہ آج کل سارے مافیاز ایک جگہ بیٹھے نظر آتے ہیں۔
٭ تاحال وزیر خزانہ شوکت ترین نے پچھلے ہفتے کابینہ کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے پر نظرثانی کرنا پڑے گی کیونکہ یہ معاہدہ اسی طرح سے رہا تو پاکستان ترقی کی طرف نہیں، کساد بازاری کی طرف بڑھے گا۔ کساد بازاری یعنی مندا اور وہی مندا جس نے ہر دھندا چوپٹ کر رکھا ہے۔ شوکت ترین نے اختصار سے کام لیا، ان کا فقرہ چنانچہ جامع نہیں ہے۔ جامع فقرہ یوں ہوتا ہے کہ پھر پاکستان ترقی کی طرف نہیں، کساد بازاری کی طرف مزید بڑھے گا۔ یعنی انہوں نے ازراہ اختصار ایک لفظ "مزید" کو قربان کر دیا۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ محض ایک لفظ ہی تو حذف کیا ہے لیکن انہیں کوئی بتائے کہ اسی ایک "لفظ" نے پاکستانیوں کی زندگی ہی حذف کر دی ہے۔ یا یوں کہیے کہ زندگی تو موجود ہے، عمران خاں کے "وژن" اور "بصیرت" نے اب زندگی سے خوشی، اطمینان آسودگی حذف کر دی ہے۔ عمران خاں کہتے ہیں اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، سچ ہی تو کہتے ہیں، کوئی بھی بھوکا نہیں سو رہا، بھوکے پیٹ نیند آ ہی کہاں سکتی ہے۔
٭ آئی ایم ایف نہ مانا تو کیا ہو گا!وہی ہو گا جو پہلے بھی اسی اڑھائی سالہ دور میں ہو چکا ہے یعنی یا سعود یہ تیرا ہی آسرا۔ سعودی عرب نے "تبدیلی" کرتے ہی خزانے کے منہ کھول لئے لیکن پھر اس بیچ میں وژن اور تدبّر اور بصورت والی بے مثال قیادت نے کچھ ایسی حرکات و سکنات کیں کہ سعودیہ ناراض ہو گیا۔ وہ سرمایہ کاری کے معاہدے جو "تبدیلی" کے آتے ہی ہوئے تھے، یہاں سے لاپتہ ہو کر بھارت پہنچ گئے اور جو قرضہ دیا گیا تھا، وہ بھی واپس مانگ لیا گیا۔ تفصیلات ناگفتنی اور ناقابل تحریر ہیں، بہرحال حالات نے کروٹ لی اور سعودی آسرا ایک بار پھر مہربان ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن یہ مہربانی نقد اور پیشگی نہیں ہے، اگر مگر سے مشروط ہے اور اس اگر مگر کے عوض جو "خدمت" لی جانی ہے وطن والوں کو اس قابل نہیں سمجھا جا رہا کہ انہیں اس کے بارے میں بتایا جائے۔ اہل وطن تو دور کی بات، آسکر ایوارڈ کی حق داری رکھنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی اس "خدمت" کے خدوخال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ شاہ محمود قریشی کو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ان دنوں ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جو آپ کے وزارت خارجہ سنبھالنے کے فوراً بعد کی ایک تقریر پر مشتمل ہے۔ ویڈیو میں آپ فرما رہے ہیں کہ وہ دن گئے جب خارجہ امور کے فیصلے کہیں اور ہوا کرتے تھے، آج کے بعد یہ فیصلے یہاں ہوں گے، یہاں یعنی دفتر خارجہ میں۔ یہ کہتے ہوئے آسکر ایوارڈ کی حق داری رکھنے والے شاہ محمود قریشی نے پورا زور لگا کر ڈیسک کو بار بار بجایا۔ مطلب یہ کہ یہ جو بات آپ نے کہی، اچھی طرح ٹھوک بجا کر کہی۔ کہتے ہیں، پھر کسی اور نے انہیں ٹھوک بجا کر بتا دیا کہ میاں فیصلے جہاں ہوتے ہیں، وہیں ہوا کریں گے، آپ مزے سے دہی کے ساتھ روٹی کھائو اور موج کرو۔ چنانچہ قریشی صاحب ان دنوں موج کر رہے ہیں اور کوئی پوچھے کہ وزیر خارجہ صاحب کشمیر پر کیا ہو رہا ہے، بھارت سے معاملہ بندی کی کیفیت کیا ہے تو مزے سے جواب دیتے ہیں، کہ ارے، میرے وزیر اعظم کو پتہ نہیں تو مجھے کیسے پتہ ہو گا۔ اہل وطن البتہ موج نہیں کر رہے، انہیں تو دہی سے روٹی کھانے کی سہولت سے بھی خاں صاحب نے محروم کر دیا ہے۔ حال مستی اڑنچھو ہو گئی، فاقہ مستی، ناچ رہی ہے۔
٭ میڈیا پر خبر چلی کہ خاں صاحب نے دوائوں کی قیمتوں میں 20فیصد اضافے کی سمری پر دستخط کر دیے۔ بھلا اس میں خبریت کی کیا بات ہے؟ خاں صاحب نے دوا سازوں اور دوا فروشوں کے آگے پہلے کبھی انکار کیا ہے جو اس بار انکار کرتے۔ بہرحال یہ 20فیصد اور پہلے کے چار سو فیصد اضافے ملا کر کل اضافہ 420فیصد کا ہو گیا۔ علم الاعداد کے حساب سے یہ بہت ہی مبارک عدد ہے۔
٭ حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو اس لئے لندن بھجوایا جا رہا ہے کہ وہ بڑے بھائی کو اپنی ڈگر پر لا سکیں۔"اپنی ڈگر" والی بات قابل تشریح ہے لیکن اس سے بھی زیادہ پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ کون انہیں لندن بھجوا رہا ہے۔ جو بھجوا رہا ہے، "ڈگر" بھی اسی کی ہو گی۔ خیر، فی الحال تو خاں صاحب نے ٹانگ آگے کر کے ڈگر کا اور اصحاب ڈگر کا راستہ روک دیا ہے۔