Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Muslim League Ko Izafi Seatain Mubarak

Muslim League Ko Izafi Seatain Mubarak

افغانستان میں جنگ جوبن پر آ گئی ہے۔ پچھلے روز ایک ہی دن میں دو سو افراد مارے گئے۔ امریکہ کے چلے جانے کے بعد اب جنگ میں کوئی کافر نہیں مر رہا۔ دونوں طرف سے مسلمان ہی مر رہے ہیں اور دونوں طرف سے افغان ہی مر رہے ہیں۔ طالبان سرکاری فوجیوں کو کافر تو نہیں، البتہ کافر نواز کہتے ہیں۔ سرکاری فوجی اپنے مسلمان ہونے پر مصر ہیں۔ فیصلہ کرنے کے لئے ہمارے ہاں سے بھی مولوی حضرات کا وفد جائے تو بات بنے۔ طالبان کو کراچی کا ایک اخبار"طالبان مجاہدین" کہنے بلکہ لکھنے کا التزام کر رہا ہے۔ پچھلے دو تین عشروں سے یہ محض طالبان ہی لکھتا تھا، اب طالبان مجاہدین لکھتا ہے، ایک خبر میں دس بار نام آئے تو دس بار لکھتا ہے۔ اکیلے طالب کو طالب مجاہد لکھے گا، اگرچہ ابھی اس کی ضرورت نہیں آئی کہ طالبان اکیلے دوکیلے تو ہوتے نہیں۔ آج تک کوئی طالب نہیں دیکھا، جب بھی دیکھے طالبان ہی دیکھے۔ طالبان مجاہدین نے حال ہی میں مزید علاقے فتح کئے ہیں لیکن نقشے پر توازن جوں کا توں ہے۔ یعنی طالبان مجاہدین کے قبضے میں 45سے 50فیصد رقبہ ہے۔ کابلی مجاہدین یعنی سرکاری فوجوں کے پاس وہی 25سے 30فیصد اور باقی ویران بیابان علاقے جن کو بعض فوجی مبصر Contestedلکھتے ہیں۔

مطلب قبضہ ہونے کے منتظر علاقے۔ نقشے میں توازن نہ بدلنے کی وجہ یہ ہے کہ کئی مفتوحہ علاقے سرکاری فوج پھر واپس لے لیتی ہے۔ طالبان مجاہدین کا کہنا ہے کہ سرحدوں کے ساتھ ساتھ کا 90فیصد علاقہ ان کے پاس ہے۔ عام عوام ڈرے ہوئے ہیں۔ طالبان کے نظام انصاف پر انہیں شکوک ہیں۔ اس میں کچھ پروپیگنڈے کا بھی عمل دخل ہے۔ کابلی مجاہدین کو اطمینان ہے کہ امریکہ بہادر کی فضائی طاقت کابل کو فتح نہیں ہونے دے گی۔ امریکہ نے کئی شہروں میں طالبان پر بمباری کی ہے۔ بمبار طیارے بھی استعمال ہوئے ہیں اور ڈرون بھی نہ جانے کہاں سے اڑے ہوں گے۔ ایران نے حزب الثعبی کے نام سے ایک فوج تیار کر کے افغانستان میں داخل کرنے کا پلان بنایا ہے۔ شاید جلد بازی ہو گئی۔ ابھی کسی اور ملک کے فوج داخل کرنے کا مرحلہ نہیں آیا۔ ابھی تو یہ پتہ ہی نہیں چل رہا کہ امریکہ افغانستان کو چھوڑ بھی رہا ہے یا نہیں، اس کے یہ اعلانات کہ وہ اشرف غنی سرکار کو گرنے نہیں دے گا، چھوڑنے کا اشارہ تو نہیں دیتے۔ فی الحال طالبان کو طویل انتظار کا سامنا ہے۔

٭نامور اداکارہ مہوش حیات نے تحریک انصاف کی کامل و اکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کی بہتری چاہتی ہیں، وزیر اعظم بنی تو ملکی ترقی کے لئے رات دن ایک کر دوں گی۔ فی الحال تو عمران خاں ملک کی بہتری چاہ رہے ہیں اور ملکی ترقی کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں، اس لئے محترمہ کو اپنی باری کے لئے انتظار کرنا ہو گا۔ انہوں نے انٹرویو میں سوال کیا کہ میں کیوں نہیں وزیر اعظم بن سکتی۔ جواب ہے کہ کیوں نہیں، آپ ضرور وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔ کوالیفائی کرنے کی تمام شرطیں آپ پہلے ہی پوری کر چکی ہیں۔ ہینڈسم ہیں، نیک سیرت اور قبول صورت ہیں، سچّی اور امانت دار ہیں، خوش کردار ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محب وطن ہیں اور عوامی حلقوں میں مقبول ہیں۔ لیکن ہر کام اپنی باری پر ہوتا ہے۔ اس لئے انتظار فرمائیے۔ کتنا؟ کچھ زیادہ نہیں۔

عمران خان اور کتنا عرصہ وزیر اعظم رہ لیں گے؟ زیادہ سے زیادہ تیس سال نصف جس کے پندرہ اور دوگنے 60سال ہوتے ہیں۔ اس کے بعد تو انہیں وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا ہی ہے۔ تیس سال بعد محترمہ بھی چالیس سال کی ہو چکی ہوں گی جو وزیر اعظم بننے کے لئے آئیڈیل عمر ہے۔ اس دوران خبر آئی ہے کہ ایک اور نیک سیرت قبول صورت صاحبہ کردار محترمہ میرا صاحبہ نے بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ تمام اچھے اچھے اور صاحبان کردار بالآخر تحریک ہی میں آتے ہیں۔ محترمہ نے ابھی عندیہ نہیں دیا کہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں یا نہیں۔ انہیں ایک تو وہی مشورہ ہے انتظار کیا۔ تیس سال بعد وہ بھی چالیس سال کی ہو جائیں گی اور دوسرا مشورہ ہے کہ وزیر اعظم کا عہدہ مہوش صاحبہ کے لئے رہنے دیں، ان کے لئے صدارت ٹھیک رہے گی۔ ویسے تب تک ترقی اور خوشحالی کا سفر اتنا زیادہ طے ہو چکا ہو گا کہ دونوں محترمائوں کے لئے مزید کچھ کرنے کی گنجائش کم ہی رہ جائے گی۔

٭مسلم لیگ (ن)کو آزاد کشمیر میں تین اضافی سیٹیں مبارک ہوں۔ نعمت غیر مترقبہ ایک مہینے پہلے جون لیگ کی کارکردگی تھی، اس حساب سے مسلم لیگ (ن)کو مشکل سے دو سیٹیں ملنا تھیں۔ کارکردگی کی بنا اس کی خبر باخبر تجزیہ نگاروں کو مل چکی تھی اور انہوں نے اپنے کالموں اور نشریوں میں شائع اور نشر بھی کر دیا تھا۔ الیکشن سے ایک رات پہلے ایک محب وطن نے یہی دو کی تعداد پھر بتائی، لیکن لگتا ہے کہ 25جولائی کی رات کارکردگی میں شاید تین کا اضافہ ہو گیا ہو۔ سخاوت اس کو کہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے دو لاکھ ووٹ کم لئے، سیٹیں چھ زیادہ لے لیں۔ توازن اس کو کہتے ہیں۔