اکبر بادشاہ کے نورتن تھے، ان نو میں سے ایک رمتانو پانڈے بھی تھے۔ یہ گوالیار کے علاقے کے تھے اور دھرپد کے استاد۔ دربار اکبری کے درباری گویا تھے۔ اسی دور میں دربار گوالیار کے ایک گویے کا بھی شہرہ تھا۔ بائجی ناتھ مشرا۔ یہ بھی گوالیار ہی میں پیدا ہوئے اور راگ دھرپد کے استاد تھے۔ رمتانو پانڈے کے استاد سوامی ہری داس تھے۔ لکھا ہے کہ بائجی ناتھ مشرا بھی سوامی جی کے چیلے تھے لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ وہ سوامی سے سینئر تھے، ان کے شاگرد کیسے ہو سکتے تھے۔ روایت ہے کہ دربار اکبری میں ان دونوں کا مقابلہ ہوا۔ دونوں نے سروں کا جادو جگایا ایک نے دیپک کو روشن کر دیا، دوسرے نے مینہ برسا دیا۔ لیکن یہ محض کہانی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ دونوں کے مقابلے کی کہانی بھی مشکوک ہے۔
بہرحال، دربار اکبر میں رمتانو پانڈے کا بڑا رتبہ تھا۔ جیسا کہ لکھا وہ نو میں سے ایک رتن بھی تھا۔ اکبر بادشاہ نے رمتانو پانڈے کو میاں کا اعزازی خطاب دیا اور وہ میاں تان سین کے نام سے تاریخ میں زندہ رہے۔ اور رہے بائجی ناتھ مشرا تو انہوں نے بیجو باورا کے نام سے شہرت پائی۔ وہ تان سین، سے بھی سینئر تھے لیکن دونوں میں مقابلہ نہیں تھا، دوستی ضرور ہو گی۔
اور یہ دوستی مرتیو کے بعد بھی جاری رہی۔ دونوں کے بارے میں سنا ہے کہ گاہے گاہے بیکھنٹھ سے اترتے اور ادھر ادھر کے راشٹروں میں جا کر راگ رس کی کھوج کرتے ہیں۔ حال ہی میں وہ پاکستان آ براجے وہ ایک چھپڑ ہوٹل میں اترے کہ دربار اکبری سے ملنے والے سکے اب ناکارہ ہو چکے، کم پیسوں کے ساتھ ساڑھے تین اور پونے چار سٹار والے ریسٹورنٹوں میں تو کھانے سے رہے جو لاہور کراچی وغیرہ میں کھمبیوں کی طرح اگ آئے ہیں اور جن کے دام لوئر مڈل کلاس والے کی پورے مہینے کی بگھار سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
چھپڑ ہوٹلوں کو بھارت میں ڈھابا کہتے ہیں تو یہ دونوں جوڑی دار صبح کے وقت لاہور کے ایک کنارے پر واقع ڈھابے پر اترے۔ دھند نے دھندلکا مچا رکھا تھا اس لئے کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ یہ کہاں سے آئے۔ آسمان سے ٹپکے کہ دھرتی سے آئے۔ بہرحال دونوں نے پوری بھاجی کا آرڈر دیا۔ اسی دوران ٹی وی پر پی ایس ایل کا گیت بجنے لگا۔ رمتانو نے حیرت سے کہا مشرا کچھ کچھ ایسا نہیں لگتا کہ یہ کسی "مہلا" کی آواج ہے؟ مشرا بولا لگ تو مجھے بھی ایسا ہی رہا ہے، پر اسے ہوا کیا ہے، بہت سنکٹ سے گجر رہی ہے(سخت تکلیف میں ہے) رمتانو نے ہوٹل والے سے پوچھا، جج مان، اس مہیلا کو کیا ہوا ہے۔ ہوٹل والا مہیلا کا لفظ تو نہ سمجھ سکا لیکن یہ سمجھ گیا کہ مہاشے اس گانے والی کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ بولا ہونا کیا ہے، گیت گا رہی ہے۔ گیت?؟ " رمتانو اور مشرا دونوں اچھل پڑے۔ تمہارے ہاں اسے گیت کہتے ہیں۔ ہوٹل والا بولا تو اور کیا تمہارے ہاں کیا کہتے ہیں۔؟ ہمارے ہاں ?" دونوں جواب دیتے دیتے رہ گئے اور پوچھا کہ یہ ہے کون۔ بولا یہ اس دور کی ملکہ ترنم ہیں۔ مشرا الجھ گیا رمتانو کا علم زیادہ تھا، اس نے جوابی سوال کیا ملکہ ترنم نورجہاں کو کہتے تھے؟ ڈھابے والے نے کہا وہ پرانی ترنم تھی۔ اب نیا پاکستان ہے تو ملکہ ترنم بھی نئی ہے۔ اس جواب پر رمتانو کے طوطے اڑ گئے اور مشرا کی سٹّی گم ہو گئی۔ دونوں ہکّا بکّا بیٹھے رہے۔
گانا ختم ہو گیا۔ دونوں کی حالت بھی کچھ سنبھلی اور بولے تمہارے ہاں کوئی کلاسیکل بھی گاتا ہے۔ ہوٹل والا ذرا سوچ کر بولا، ہاں، ہے نا، بولے ذرا اسے سنوائو تو۔ ہوٹل والا جان گیا تھا کہ دونوں مہاشے بھارت سے آئے ہیں، سکھ ہیں کرتار پور کے راستے ننکانہ یاترا کو آئے ہوں گے۔ جوگی ہیں گروگورکھ ناتھ کے ٹیلے کو جاتے ہوں گے۔ اس نے ٹی وی بند کیا اور پلیئر پر ایک ڈسک ڈھونڈ کر لگا دی۔ کنے کنے جانا بلو دے گھر۔ دونوں مہاشوں کی حالت غیر ہو گئی اور بڑی مشکل سے بولا، یہ کلاسیکل ہے؟ کہا، ہاں جی، آج کل ہمارا کلاسیکل ایسا ہی ہے۔ پوچھا کون مہان گائیک ہے۔ بتایا کہ ابرار الحق۔ دونوں نے ہاتھ باندھ کر کہا، آپ کا کلاسیکل سن لیا، اب بند کرو تو بڑی کرپا ہو گی۔ ہوٹل والے نے پلیئر بند کر کے ٹی وی آن کر دیا۔ سکرین پر فردوس عاشق اعوان اور شبلی فراز کی پریس کانفرنس ہو رہی تھی۔ دونوں نے پوچھا یہ کون ہے، کلاسیکی کہ پاپ۔ ہوٹل والے نے کہا جو مرضی سمجھ لو اور یہ تبدیلی راگ گا رہے ہیں، کچھ لمحوں کے بعد این آر او والی قوالی گانے والے ہیں۔ جس میں بندہ ایماندارے کی بندش والی تان بھی ہو گی۔
ڈھابے والا بولا، لگتا ہے آپ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔ مشرا نے کہا اسے چھوڑو کہ پسند آیا یا نہیں، یہ بتائو یہ گا کیا رہا تھا۔ ڈھابے والے نے کہا، کمال ہے، آپ نے "گوگوش" کی یہ غزل نہیں سنی۔ عاطف اسلم نے اسے "پالش" کر کے اچھا سا بنا کے گایا ہے۔ دونوں چونکے، وہ ایران والی۔ وہ تو بہت بڑی گلوکارہ ہے۔ اس طرح کیسے گا سکتی ہے۔ ڈھابے والا حیران ہو کر بولا تو کیا عاطف کم بڑا گلوکار ہے"ڈھابے والا لپک کر آیا اور چلایا، ادھو۔ اسے مرگی کا دورہ پڑا ہے۔ اسے ابرار الحق کا گانا سنگھائو، میرا مطلب ہے سنائو، ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ سن کر رمتانو بجلی کی طرح اٹھا اور زور زور سے یہ کہتے ہوئے کہ مرگی مجھے نہیں ہے، مرگی مجھے نہیں ہے۔ باہر کو دوڑ لگا دی۔ مشرا اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ ڈھابے والے نے پیچھے سے فقرہ کسا۔ مہاراج ابھی سے بھاگ گئے۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو تو سنتے جاتے۔
یہ سن کر دونوں "سپیڈ کی لائٹ" سے بھاگے اور سامنے موجود زیر تعمیر پلازے کے پاس پہنچتے ہی فضا میں بلند ہوئے اور پلازہ پار کر کے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
(اس تحریر کا ذمہ دار یہ راقم نہیں ہے۔ پی ایس ایل کے لئے نصیبو لال کا گایا ہوا گانا اور پھر اس کی تعریفیں سننے کے بعد سیارہ عطارد سے ان خرافات کا نزول ہوا۔ چنانچہ جملہ قسم کی دلآزاری کا ذمہ دار عطارد ہی کو سمجھا جائے۔ راقم)